حضرت انس رضی اللہ عنہ کی ماں حضرت اُمِّ سلیم Hazrat e Umme Suleem Umme Saleem

 حضرت انس رضی اللہ عنہ کی ماں  حضرت اُمِّ سلیم 

اگرچہ حضور سرور عالم(ﷺ) کا ہر صحابی جوہر آبدار تھا لیکن بعض ان میں کسی خصوصی وجہ سے ممتاز اوراعلیٰ شان کے مالک ہوئے ان میں حضرت انس (ص) بھی ہیں جنہیں ماں کی تربیت نے اتنا اونچا مقام بخشا جواہل علم سے مخفی نہیں۔

حضرت انس رضی اللہ عنہ کی ماں کا تعارف

آپ کا نام رمیلہ یاسہلہ اوربعض کے نزدیک رمیشہ ہے ،اُمِّ سلیم اوراُمِّ انس، کنیت اُمِّ سلیم زیادہ معروف ہے ،غمیصاء ،رمیصا لقب ہے ،ان کے با پ ملحان بن خالدبن زید بن حرام بن جندب تھے ،جومدینہ کے باشندے اورانصار کے قبیلۂ نجار سے متعلق تھے ،ماں کانام ملیکہ تھا جو مالک بن عدی بن زید بن مناۃ بن عدی بن عمر وبن مالک بن نجار کی بیٹی تھیں۔آبائی سلسلہ سے آپ سلمیٰ بنتِ یزید کی پوتی تھیں ،سلمیٰ عبدالمطلب کی والدہ تھیں،اسی وجہ سے اُمِّ سلیم آنحضرت (ﷺ) کی خالہ مشہور ہیں ۔پہلے ان کا نکاح مالک بن نضر سے ہوا جو ان کے ہم قبیلہ تھے ، حضرت انس (ص) انھیں سے پیدا ہوئے ۔

اسلام

اوائلِ اسلام میں مسلمان ہوئیں ،اسی بنا پر حافظ ابن حجر نے اصابہ میں لکھا ہے:’’اسلمت مع السابقین الی الا سلام من الانصار۔‘‘حضرت انس(ص)اس وقت بچہ تھے ،حضرت اُمِّ سلیم ان کو کلمہ پڑھاتی تھیں تو مالک بن نضر جو اپنے مذہب پر قائم تھااورمشر ک تھا ،بہت خفا ہوتا تھا کہ تم میرے بچے کو بھی بے دین کئے دیتی ہو ۔غرض وہ مسلمان نہ ہوناتھا نہ ہوااوراسی حالت میںناراض ہو کر شام چلاگیا۔
یہاں ان کا کوئی دشمن پہلے سے منتظر تھا اس نے موقعہ پاکر قتل کر ڈالا ،اب اُمِّ سلیم بیوہ تھیں اورانس کے بچپن سے بہت پریشان ،اگر ایسے وقت میں نکاح کرلیتیں توقابلِ الزام نہ تھیں مگر انھوں نے بڑے استقلال سے کام لیا اورسب کے پیغام یہ کہہ کر رد کردیئے کہ جب تک میرا بیٹا مجلسوں میں اُٹھنے بیٹھنے اورگفتگو کرنے کے قابل نہ ہوجائے نکاح نہ کروں گی ،پھر جب انس ہی میرے نکاح پر رضا مند ہوگا توکروں گی۔ان کا یہ کہنا اس خیال سے تھا کہ سوتیلے باپ سے حضرت انس(ص) کوتکلیف نہ ہو۔(طبقات)
جب حضرت انس(ص) سنِ شعور کو پہنچے توانھیں کے قبیلہ کے ایک شخص ابوطلحہ نے نکاح کاپیام دیا ،مگر مالک کی طرح یہ بھی مشرک تھے اوریہاں بھی وہی امر حائل تھا جوپہلے مالک اوراُن کے درمیان کشیدگی کاباعث ہوا ،اس لئے انہوں نے عذر کیا اورکہا کہ میں تومحمد (ﷺ) پرایمان لائی ہوں ،اورگواہی دیتی ہوں کہ وہ خدا کے رسول ہیں تمہارے اوپر البتہ افسوس ہے کہ پتھر کو پوجتے ہو کیالکڑی کے بُت تم کو کچھ نفع نقصان پہنچا سکتے ہیں ۔‘‘ یہ تلقین کچھ ایسے حکیمانہ اندا ز میں کی گئی کہ اسلام کی صداقت ،ابوطلحہ کے سمجھ میں آگئی اورچند دن کے غور کے بعد وہ اُمِّ سلیم کے پاس آکر مشرف بہ اسلام ہوئے۔(طبقات)
ابوطلحہ بہت معمولی حیثیت کے آدمی تھے مگر چونکہ اُمِّ سلیم کے سمجھانے سے مسلمان ہوئے تھے اس لئے اُمِّ سلیم کے دل میں اُ ن کی حق پسندی کی وقعت بڑھ گئی اوراُنہوں نے قبولِ اسلام کے بعد ہی ابو طلحہ سے کہہ دیا کہ ’’فانی اتزوجک ولا اخذ منک وصداقًا غیرہ‘‘میں بھی تم 
سے نکاح کرتی ہوں اورسوائے اسلام کے کوئی مہر نہیں لیتی ۔یعنی اُن کا مہر ابوطلحہ کااسلام قرار پایا ۔یہ نکاح حضرت انس(ص)کے زیر اہتمام ہوا ۔(طبقات)

عام حالات

حضرت اُمِّ سلیم بھی بعض مسلمان شیر دل عورتوں کی طرح معرکہ کی لڑائیوں میں مردوں کے دوش بدوش رہیں اوربرابرکام کرتی رہیں ۔صحیح مسلم میں ہے :’’کان رسول اللّٰہ (ﷺ)یغزدبام سلیم ونسوۃ من الانصار معہ اذاغزا فیسقین الماء ویداوین الجرحی۔‘‘رسول اللہ (ﷺ) غزوات میں اُمِّ سلیم اورانصارکی چند عورتوں کے ساتھ رکھتے تھے ، جب آپ جنگ میں مشغول ہوتے تو یہ پانی پلاتیں اورزخمیوں کی مرہم پٹی کرتی تھیں۔(مسلم شریف)
جنگِ اُحد میں اُمِّ سلیم معہ اپنے شوہر ابوطلحہ کے شریک تھیں ابوطلحہ آنحضرت (ﷺ) کی حفاظت میں دشمنوں کے تیر اور نیزے جگر پر روکتے تھے اوراُمِ سلیم بڑی مستعدی سے مجاہدین کی خدمت میں مصروف تھیں ،حضرت انس (ص) کابیان ہے کہ میں نے عائشہ اوراُمِّ سلیم کوپائچے چڑھائے مشک بھر بھر کرلاتے اور زخمیوں کوپانی پلاتے دیکھا،جب مشک خالی ہوجاتی توپھر بھرلاتی تھیں۔(مسلم شریف)
معرکۂ خیبر  ۹ھ؁ میں ہوا ۔اس میں بھی حضرت اُمِّ سلیم آنحضرت (ﷺ) کے ساتھ تھیں۔فتح کے بعد جب حضرت صفیہرضی اللہ عنہاازواجِ مطہرات میں داخل ہونے لگیں توآپ نے ان کو اُمِّ سلیم کے سپرد کیا کہ دُلہن بنائیں ۔ (مسلم شریف)
جنگِ حنین میں حضرت اُمِّ سلیم شریک تھیں اورباوجودیکہ عبداللہ بن ابی طلحہ پیٹ میں تھے ، آپ ہاتھ میں خنجر لئے ہوئے تھیں ۔ابوطلحہ نے آنحضرت (ﷺ) سے کہا کہ اُمِّ سلیم ہاتھ میں خنجر لئے ہوئے ہیں۔ آپ نے پوچھا کیاکروگی بولیں۔’’ان دنامنی احد من المشرکین بفرت بہ بطنہ۔‘‘
’’کوئی مشرک قریب آئے گا تو اس کا پیٹ چاک کردوں گی ۔‘‘آپ نے تبسم فرمایا پھر بولیں یا 
رسول اللہ (ﷺ) بکّہ کے لوگ بھاگ گئے ہیں ان کے قتل کاایما فرمائیے ارشاد ہوا:’’ان اللّٰہ قد کفٰی واحسن‘‘اللہ نے خود ان کابہتر انتظام کردیا ہے۔(طبقات)

 حضرت انس رضی اللہ عنہ کی تربیت کاانتخاب

ابوطلحہ سے نکاح ہوجانے کے بعد جب آنحضرت (ﷺ) مدینہ تشریف لائے تواُمِّ سلیم حضرت انس کو آپ کی خدمت میں دے چکی تھیںحضرت انس(ص) آپ (ﷺ) کے خدامِ خاص سے تھے اوربہت محبو ب تھے ۔ایک بار آپ اُمِّ سلیم کے گھر آئے تواُمِّ سلیم نے مکھن اورکھجوریں پیش کیں۔ آپ(ﷺ)نے عذرفرمایا کہ میں روزے سے ہوں ،تھوڑی دیرقیام فرمانے کے بعد نفل نماز پڑھی اوراُمِّ سلیم اوراُن کے خاندان کے لئے دعا مانگی اُمِّ سلیم نے دیکھا کہ ا س وقت محبت ِ نبوی جوش پر ہے توکہایا رسول اللہ!(ﷺ) میں سب سے زیادہ انس کو چاہتی ہوں،جوآپ(ﷺ) کاخدمت گار ہے اس کے لئے خصوصیت سے دعا فرمائیے ،یہ ایسی مبارک استدعاتھی کہ آپ(ﷺ) نے دین ودنیا کی کوئی خوبی نہ چھوڑی جس کی انس (ص) کے لئے دعا نہ کی ہو ،اورفرمایا:’’اللّٰھُمَّ ارزقہ مالًا وولداوبارک لہ‘‘اے اللہ اس کو مال دے ،اولاد دے اوراس کی عمر میں برکت عطافرما،اسی دعا کا اثر تھا کہ حضرت انس(ص) تمام انصار سے زیادہ متمول اورمعمر ہوئے ۔ کثرت سے اولاد ہوئی اورسو سال سے زیادہ عمر پائی۔خود حضرت انس (ص)کاقول ہے کہ’’فانی لمن اکثر الانصار مالًا‘‘میں اکثر انصار سے دولت مند ہو ں ، اور میر ے ہی صُلب سے حجاج کے بصرہ آنے تک ایک سواُنتیس بیٹے دفن ہوگئے ۔ (طبقات)

ابوعمیر سے حضور ﷺ کا مزاح

حضرت ابو طلحہ کے صُلب سے ان کا ایک بیٹا ابوعمیر بھی تھا ،ابوعمیر چھوٹاتھا اورکم سِنی ہی میں انتقال کرگیا،ایک بار آپ ابوطلحہ کے گھر تشریف لائے اورابوعمیر کورنجیدہ دیکھ کر آپ(ﷺ) نے اُمِّ سلیم سے دریافت فرمایا کیابات ہے آج میں ابوعمیر کوسُست دیکھتا ہوں،اُمِّ سلیم نے کہا ان کی ایک چڑیا (نغیر)مرگئی وہ اس کے ساتھ کھیلا کرتے تھے ،آپ(ﷺ )نے بلا کر ابوعمیر 
کے سرپر ہاتھ رکھا اورفرمایا :’’یا ابوعمیر مافعل النغیر‘‘اے ابو عمیر! تیری نغیر کیاہوئی،وہ ہنس دیا اوراس وقت سے یہ جملہ بطور تبرکاتِ نبوی ضرب المثل ہوگیا۔(طبقات)
آنحضرت (ﷺ)نے حضرت زینب بنتِ جحش (ص) سے نکاح کیا تواُمِّ سلیم نے ایک لگن میں ملیدہ بناکر حضرت انس (ص) کے ہاتھ بھیجا اورکہا آنحضرت(ﷺ) سے عرض کرنا کہ یہ حقیر ہدیہ قبول فرمائیں۔(مسلم)

اخلاق وعادات

آپ نہایت پاکیزہ اخلاق کی بیوی تھیں ،صبرواستقلال توان کاامتیازی وصف تھا یہی ابوعمیر جن کا اوپر ذکر ہوا جب انتقال کرگیا تواُمِّ سلیم نے بڑے اطمینان سے میّت کو نہلایا اورکفنا کر ایک طرف رکھ دیا لوگوں کو منع کر دیا کہ ابوطلحہ کو خبرنہ کریں ،ابوطلحہ اس وقت موجود نہ تھے ،کہیں گئے ہوئے تھے ،جب رات کو آئے تو لڑکے کا حال پوچھا ،بولیں جس حال میں تم نے دیکھا تھا اس سے بہتر ہے ۔ اس کے بعد اُمِّ سلیم نے کھانا کھلایا اطمینان سے بٹھایا اورجب ضروریات سے فارغ ہو کر کچھ رات گذری تونہایت متانت سے بولیں۔’’ابوطلحہ ! کسی کو اگر کوئی چیز مستعار دی جائے اوروہ اُس سے فائدہ بھی اٹھائے …مگر جب وہ شے مستعار واپس لے لی جائے توکیا اس شخص کوناگوار ہونا چاہئے ۔ ’’حضرت ابو طلحہ(ص) نے جواب دیا کہ یہ بات تو قرینِ انصاف نہیں ہے ،بولیں توتمہارالڑکا بھی اللہ کی امانت تھا جو واپس لے لیا گیا ،یہ سُن کر ابو طلحہ نے اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَپڑھا اورخدا کا شکر ادا کیا ۔صبح ہوئی تواس واقعہ کی رسول اللہﷺکو خبر کی آپ ﷺ نے اظہارِ مسرت فرمایا اوردعا دی کہ اللہ عزوجل ابوعمیر کا نعم البدل عطافرمائے چنانچہ ابوعمیر کے بعد عبداللہ کی ولادت ہوئی جن کی تربیت خودآنحضرت ﷺنے فرمائی اسی کی برکت تھی کہ عبداللہ بڑے صاحب کمال ہوئے اوران کی اولاد میں دس قاری ماہر فن پیدا ہو ئے ۔ ( ا صا بہ) 

اُمِّ سلیم کے عقائد کے نمونے

حضو ر (ﷺ)کے ساتھ آپ کا اعتقاد بہت بڑھا ہو اتھا ،اورآپ سے بڑی عقیدت ومحبت تھی۔ایک بارابوطلحہ آئے اورکہا کہ رسول اللہ(ﷺ) بھوکے ہیں ،کچھ کھانا بھیج 
دو،حضرت اُمِّ سلیم نے چند روٹیاں ایک کپڑے میں لپیٹ کر حضرت انس (ص) کودیں کہ بارگاہِ نبوّت میں پیش کریں۔ آپ مسجد میں معہ چند صحابہ کے تشریف رکھتے تھے۔ حضرت انس(ص) کودیکھاتوفرمایا ،تم کو ابوطلحہ نے بھیجا ہے،کہا جی ہاں،فرمایا کھانے کے لئے ،بولے ہاں ۔آپ معہ تمام حاضر الوقت صحابہ کے گھر تشریف لائے وہ گھبرائے اوراُمِّ سلیم نے اس وقت بھی نہایت استقلال سے جواب دیا کہ ان باتوں سے خدا جل جلالہٗ اوررسول (ﷺ) زیادہ واقف ہیں ، آپ اندرآئے تواُنہوں نے روٹیاں اورسالن سامنے رکھ دیا اوررسول اللہ (ﷺ) نے تمام اصحاب کے ساتھ تناول فرمایا۔

موئے مبارک بطور تبرک محفوظ

فراغتِ حج کے بعد آنحضرت(ﷺ) نے مقام منیٰ میں موئے مبارک ترشوائے۔ اُمِّ سلیم نے ابوطلحہ(ص) سے کہا کہ حجام سے ان بالوں کو مانگ لو اور برکت کی غرض سے ان کو ایک شیشی میں بند کرکے رکھ لیا۔(طبقات)

پسینہ مبارک تبرک

آنحضرت (ﷺ)اکثر ان کے گھر آرام فرماتے تھے ۔ایک مرتبہ بیدار ہوئے تو دیکھا کہ اُمِّ سلیم جبینِ مبارک سے پسینہ پونچھ رہی ہیں۔فرمایا اُمِّ سلیم !   یہ کیا کر رہی ہو۔بولیں،برکت حاصل کررہی ہوں۔(طبقات)
ایضاً
مسندِ احمد میں یہ روایت تھوڑے اختلاف کے ساتھ آئی ہے ،لکھا ہے جب آپ دوپہر کو آرام فرما کر بستر سے اُٹھتے تووہ آپ کے پسینہ اورٹوٹے ہوئے بالوں کوایک شیشی میں جمع کرتی تھیں۔

ایک اورتبرک محفوظ

ایک بار آنحضرت (ﷺ) نے اُن کی مشک سے منہ لگاکرپانی پیا تو اُمِّ سلیم نے مشکیزہ کادہانہ کاٹ کر رکھ لیا کہ اس سے رسول اللہ(ﷺ) کادہن مبارک مَس ہوا ہے ۔(طبقات)

حُبِّ رسولﷺ کے نمونے}

یہی حال رسول اللہ ﷺکی محبت کاتھا اُمِّ سلیم کے ساتھ ۔آپ ﷺ ان کے ساتھ خصوصیت کابرتائو کرتے تھے اوران کے لئے خیر وبرکت کی دعا فرماتے تھے۔مروی ہے کہ: ۱)کان النبی لایدخل علی احد من النساء الاعلی ازواجہ الا اُم سلیم فانہ یدخل علیھا فقیل لہ فی ذلک فقال انی ارحمھا قتل اخوھا معی(رواہ مسلم)یعنی آپ ازواجِ مطہرات کے علاوہ کسی اور عورت کے ہاں نہیں جاتے تھے ،البتہ اُمِّ سلیم مستثنیٰ تھیں ۔لوگوں نے اس کاسبب دریافت کیا توفرمایا مجھے ان پر رحم آتا ہے کیونکہ ان کے بھائی نے میری اعانت میں شہادت پائی ہے۔(طبقات)
۲)بعض اوقات آپ اُمِّ سلیم کے ہاں ہوتے اورنما ز کا وقت آجاتا تو وہیں چٹائی پر نماز پڑھ لیتے ۔ 
(طبقات)
۳)ایک مرتبہ آنحضرت(ﷺ) حج کے لیے مکہ چلے تو اُمِّ سلیم سے فرمایا :’’تم اس سال ہمارے ساتھ حج نہیں کرتیں ۔‘‘جواب دیا یانبی اللہ (ﷺ) میرے شوہر کے پاس دوسواریاں ہیں اوران دونوں پر وہ مع اپنے بیٹے کے حج کوچلے گئے ،مجھے چھوڑ دیا ،آپ نے ازواجِ مطہرات رضی اللہ عنہن کے ساتھ سوار کردیا، راستہ میں عورتوں کے اونٹ پیچھے رہ گئے ،ہانکنے والے آپ (ﷺ)کے غلام انجشہ تھے انہوں نے حدی خوانی شروع کردی جس سے اونٹ دوڑنے لگے یہ دیکھ کر آپ(ﷺ) قریب آئے اورفرمایا انجشہ آہستہ آہستہ ! شیشے ہیں شیشے۔(طبقات)

تربیت کا سلیقہ

حضرت اُمِّ سلیم کوتربیتِ اولاد کاجوسلیقہ تھا اس کا اندازہ حضرت انس (ص) کے اس فقرے سے ہوسکتا ہے کہ جزی اللّٰہ امی عنی خیرالقد احسنت ولایتیاللہ میری والدہ کو جزائے خیر دے انہوں نے میری بہت خوبی سے کفالت کی۔(طبقات)

فضل وکمال

حضرت اُمِّ سلیم بڑی عقل وکمال والی خاتون تھیں اورآپ نے نہایت دقیقہ شناس اورنکتہ رس دماغ پایا تھا ،ابنِ اثیر نے ان کی نسبت لکھا ہے کہکانت من عقلاء النسائآپ عقلمند عورتوں میں سے تھیں۔

حدیث کی عالمہ

حدیث کاعلم بھی اچھا تھا،لوگ ان سے مسائل دریافت کرتے تھے اور شکوک رفع کرتے تھے، ایک بار حضرت زید بن ثابت اور حضرت عبداللہ بن عباس میںایک مسئلہ پر اختلاف ہواتو دونوں نے انہیں کو حکم قرار دیا۔ (مسنداحمد )

مسائل پر عبور

مسائل پوچھنے میں شرم نہیں کرتی تھیں،ایک دفعہ آنحضرت (ﷺ)سے عرض کیا یارسول اللہ(ﷺ)خدا حق بات سے نہیں شرماتا کیا عورت پر خواب میں غسل واجب ہے ؟ امّ المومنین حضرت امّ سلمہ رضی اللہ عنہا سن رہی تھیں ، بے ساختہ ہنس پڑیں اور کہنے لگیں کہ تم نے عورتوں کی بڑی توہین کی ،کہیں عورتوں کو بھی ایسا ہوتا ہے ،آنحضرت( ﷺ )نے فرمایا کیوں نہیں؟ورنہ بچے ماں کے ہم شکل کیوں ہوتے ۔(بخاری شریف)

مبلّغہ اُمِ سلیم }

ابو طلحہ(ص) کے اسلام کا حال گزر چکا ہے جس شائستگی سے انھوں نے ابو طلحہ(ص) کو دعوت دی وہ ان کے فضائل و کمالا تِ عقلی کا زریں عنوان ہے ، اصابہ میںان کا اندازِ تبلیغ یوںدکھلا یا ہے :قالت با ابا طلحۃ!الست تعلم ان الھک الذی تعبد نبت من الارض قال بلٰی قالت افلا تستحی تعبد شجرۃبولیںابو طلحہ (ص) !کیا تم کو معلوم نہیںکہ تمہارا معبود زمین سے اُگا ہے ، کہا ہاں۔امّ سلیم نے کہا تو پھر تم کو شرم نہیں آتی درخت کی پوجا کر تے ہو ۔(اصابہ)

مناقبِ اُمِ سلیم

حضرت اُمّ ِسلیم کے مناقب بہت ہیںاور ا س کی تصدیق اس حدیث سے ہو سکتی ہے :قال النبی ﷺ دخلت الجنۃ فسمعت خشفۃ فقلت ما ھذا فقیل الر میصاء بنت ملحان(طبقا ت ومسلم )
آنحضرت( ﷺ)نے فر ما یا کہ میں جنت میںگیا تو مجھ کو کچھ آہٹ معلوم ہوئی ،میںنے پوچھا کون ہے تومجھے بتایا گیا رمیصا بنت ملحان رضی اللہ عنہا ہیں ۔ 

Post a Comment

Previous Post Next Post