حضرت قاضی حمیدالدین محمد بن عطا ناگوری رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ Biography Hazrat Qazi Hameeduddin Muhammad Bin Ata Nagori | Hazrat Hameeduddin suhrawardi ra

حضرت قاضی حمیدالدین محمد بن عطا ناگوری رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ



آپ کا نام نامی محمد بن عطا تھا اصلی وطن بخارا تھا۔ آپ معز الدین سام کے عہد حکومت میں اپنے والد عطاء اللہ محمود کے ساتھ بخارہ سے دہلی آئے، ظاہری علوم حاصل کیے، آپ کے والد کا انتقال دہلی میں ہوا، اور آپ کو ناگور کا قاضی مقرر کیا گیا تین سال تک ناگور کے قاضی رہے، ایک رات حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو خواب میں دیکھا یوں محسوس کیا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم انہیں اپنی طرف بلا رہے ہیں۔ صبح اٹھے قاضی کے عہدے سے استعفیٰ دے دیا، دنیا کے تعلقات سے دست بردار ہوگئے اور سفر اختیار کرکے بغداد جا پہنچے، بغداد میں شیخ شہاب الدین عمر سہروردی کی خدمت میں رہے، ایک سال تربیت حاصل کرنے کے بعد خرقۂ خلافت سے نوازے گئے، انہی دنوں خواجہ قطب الدین بختیار اوشی بھی بغداد میں تھے، دونوں حضرات ایک دوسرے سے بڑی خلوص و محبت سے پیش آتے، بغداد سے چل کر مدینہ منورہ پہنچے اور تین سال تک حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے روضۂ مبارک پر رہے، وہاں سے چل کر بیت اللہ کی زیارت کی اور دو سال تک وہاں قیام کیا، دہلی میں واپس آکر حضرت خواجہ قطب الدین بختیار رحمۃ اللہ علیہ کی صحبت میں رہے۔ حتی کہ مرنے تک اُن سے جدا نہ ہوئے، آپ کا مزار بھی دہلی میں ہے اسی وجہ سے مشائخ عظام آپ کو خاندان چشت میں شمار کرتے ہیں۔

ایک دن قاضی حمید الدین کعبے کا طواف کر رہے تھے انہوں نے ایک بزرگ کو دیکھا کہ وہ بھی طواف کر رہے ہیں۔ آپ اُن کے ساتھ ساتھ قدم بقدم چلنے لگے، اس بزرگ نے منہ پھیر کر کہا، حمیدالدین ظاہری اتباع تو بڑی آسان بات ہے لیکن باطنی اتباع بڑی مشکل ہے۔ عرض کی حضور باطنی اتباع بھی ارشاد فرمائیں، انہوں نے کہا کہ میں طواف کرتے ہوئے ہر قدم پر قرآن پاک ختم کرتا ہوں،اگر تم میری اتباع کرنا چاہتے ہو تو ایسا کرو۔ حضرت قاضی دل میں بڑے حیران ہوئے۔ پھر انہوں نے خیال کیا کہ شاید یہ بزرگ قرآن کے معنی دل میں لاتے ہیں اور اُس کو ختمِ قرآن کا نام دیتے ہیں۔ اُس بزرگ نے آپ کے دل کی اس بات کو پالیا اور فرمایا نہیں نہیں میں حرفاً حرفاً اور لفظاً لفظاً اعراب کی درستگی کے ساتھ اول سے آخر تک قرآن پڑھتا ہوں۔

قاضی حمیدالدین بڑی لطیف طبیعت کے مالک تھے بات کرتے تو اُس میں کوئی نہ کوئی لطیفہ ضرور ہوتا، چنانچہ ایک دن شیخ کبیر خوارزمی اور شیخ حمیدالدین سوار ہوکر جا رہے تھے۔ قاضی حمیدالدین کا گھوڑا پست قد تھا۔ شیخ کبیر نے فرمایا قاضی صاحب آپ کا گھوڑا چھوٹا ہے، آپ نے جواب دیا ہاں بڑے سے اچھا ہے۔

شیخ شہاب الدین عمر سہروردی رحمۃ اللہ علیہ اکثر قاضی حمیدالدین کے متعلق فرمایا کرتے تھے بلکہ اپنے بعض رسالوں میں لکھا بھی ہے کہ ہندوستان میں میرے بہت سے خلفاء ہیں۔ مگر حمیدالدین میرے سب سے بڑے خلیفہ ہیں۔

قاضی حمیدالدین رحمۃ اللہ علیہ کو خواجہ قطب الدین بختیار رحمۃ اللہ علیہ کی مجالس سے بڑا فیض ملا، آپ سماع اور وجد میں بڑا حصہ لیتے۔ علماء وقت نے آپ پر اعتراض کیا اور بادشاہ کے حضور شکایت کی اور آپ کو تکلیف دینے کا پروگرام بنایا ایک دن آپ سلطان شمس الدین کے سفید محل کے پاس ہی ایک درویش کے گھر مجلس سماع میں شریک تھے خواجہ قطب الدین بختیار کاکی اور قاضی حمید الدین بھی اس مجلس میں رونق افروز تھے ناگاہ مولانا رکن الدین سمرقندی جو اُس وقت کے عالمِ اجل تھے محاسبہ کے لیے اٹھے اور اپنے چند خدمت گزاروں کو ساتھ لے کر مجلس کے مقام کی طرف آ پہنچے۔ اور انہوں نے اس سماع پر اعتراض کیا، ایک بزرگ جن کا نام علی درویش تھا دوڑے دوڑے قاضی حمیدالدین کے پاس آئے اور بتایا کہ مولانا رکن الدین آ رہے ہیں۔ قاضی حمیدالدین نے صاحبِ خانہ کو اپنے پاس بلاکر کہا کہ تم یہاں سے چلے جاؤ اور کہیں چھپ جأو، تمہیں کوئی بھی بلائے حاضر نہ ہونا اور اگر مولانا رکن الدین صاحبِ خانہ کی اجازت کے بغیر اندر آئے تو میں ان کا شرعی مواخذہ کروں گا صاحبِ خانہ تو اُسی وقت کہیں جا چھپے اور قاضی حمیدالدین اپنے دوستوں کے ساتھ سماع میں مشغول رہے مولانارکن الدین دروازے پر پہنچے اور صاحبِ خانہ کو طلب کیا، لوگوں نے کہا وہ تو یہاں موجود نہیں۔ مولانا سوچنے لگے کہ اگر صاحبِ خانہ کی اجازت کے بغیر اندر جاتا ہوں تو مواخذہ ہوگا، چند لمحے کھڑے رہے پھر واپس چلے گئے۔

حضرت قاضی حمیدالدین قدس سرہ نے ساری عمر میں صرف تین آدمیوں کو اپنا مرید بنایا تھا۔ اور انہیں درجۂ کمال تک پہنچا دیا، ان میں سے ایک شیخ احمد نہروانی تھے (جن کا ذکر خیر سابقہ صفحات میں گزر چکا ہے) ان کے حالات میں لکھا گیا تھا ایک رات آپ کے گھر میں چور گھس آیا، اس نے اِدھر ادھر ہاتھ مارے مگر اسے کچھ نہ ملا، باہر جانے لگا تو حضرت خواجہ نے آواز دے کر کہا، رک جاؤ، اب آئے ہو تو خالی ہاتھ نہ جاؤ، آپ اٹھے آپ نے چند گز کپڑا بنا تھا، ابھی یہ کپڑا کھڈی پر ہی تھا آپ نے اتارا اور اسے دے کر معذرت کرتے ہوئے کہا اگرچہ یہ تھوڑا سا کپڑا تمہاری اس محنت کے لائق نہیں تاہم میرے پاس اس کے سوا کچھ نہیں چور نے کپڑا لینے سے تو انکار کردیا، مگرد وسرے روز اہل و عیال کو لے کر حاضر خدمت ہوا، اور توبہ کرکے مرید ہوگیا۔

دوسرے مرید عین الدین قصاب تھے، آپ زہد و ریاضت میں ثانی نہ رکھتے تھے آپ کی زبان سے جو کچھ نکلتا اللہ اسے پورا کرتا، قاضی فضل الدین قضا کے منصب پر فائز ہونے سے پہلے آپ کے پاس آئے اور قضا کے عہدہ کے لیے دعا خیر کرائی، آپ نے فرمایا جاؤ تم قاضی ہوگئے چند دنوں بعد وہ قاضی مقرر کردیے گئے، اسی طرح جو بھی آپ کے پاس آتا محروم نہ جاتا۔

تیسرے خلیفہ شیخ حسن و سن تاب تھے۔ آپ بان بانی کیا کرتے تھے۔ بداؤں میں رہتے تھے۔ ان کا ایک واقعہ تذکروں میں موجود ہے کہ ایک دن اپنے دوستوں میں بیٹھے تھے۔ باورچی کو کہا کہ میرے دوستوں کے لیے دودھ اور چاول پکاکر لاؤ وہ لایا تو پہلا لقمہ لے کر فرمانے لگے آج معلوم ہوتا ہے کہ کھانے میں خیانت برتی گئی ہے لوگوں نے بتایا ہمیں تو کسی قسم کی خیانت کا علم نہیں صرف اتنا ہوا کہ دودھ دیگچے میں اُبل رہا تھا اور اس کے کناروں سے دودھ اُبل کر باہر جا پڑا تھا اسے ایک برتن میں جمع کرکے ہم نے پی لیا تھا فرمایا اگر زمین پر گرتا تو کوئی مضائقہ نہیں تھا اگر پیالہ میں جمع ہوگیا تھا تو یہ امانت تھا۔ یہ بھی احباب میں تقسیم کیا جاسکتا تھا آپ نے حکم دیا جس جس نے یہ دودھ پیا ہے دھوپ میں کھڑا رہے اور جب تک یہ دودھ پسینہ بن کر نہ نکلے کھڑے رہیں گے چنانچہ کھڑا کردیا گیا سورج کی گرمی نے انہیں پسینہ پسینہ کردیا، پھر انہیں سایہ میں بلایا اور پھر حجام کو بلاکر فصد کرائی گئی۔ دودھ کے برابر خون نکلوایا گیا۔

شیخ نظام الدین ابوالمؤید قدس سرہ ایک بار بداؤں میں سخت بیمار ہوئے۔ شیخ حسن رسن تاب ان کی بیمار پرسی کو پہنچے۔ شیخ نے فرمایا: حسن میرے لیے دعا صحت کرو، فرمایا میرا ایک دوست ہے شرف الدین وہ بازار میں درزی کا کام کرتا ہے اگر آپ اسے بلالیں تو ساری بیماری دور ہوجائے گی، اسے بلایا گیا تو آپ نے کہا شرف الدین ناف سے لے کر سر تک کی بیماری کا ازالہ تو میرے ذمہ ہے۔ ناف سے پاؤں تک تم ازالہ کرو گے، دونوں بزرگ مراقبے میں بیٹھ کر توجہ دینے لگے چند لمحوں بعد سر اٹھایا تو حضرت شیخ نظام الدین رحمۃ اللہ علیہ پوری طرح صحت یاب تھے۔

شیخ حسن رسن تاب کی کرامات کی شہرت سارے ملک میں پھیلی تو اردگرد سے ہزاروں لوگ آپ کی خانقاہ میں پہنچنا شروع ہوئے، ایک درویش شیخ محمد مخاسی بھی بدایوں میں رہتا تھا ایک دن حسن سے مسجد میں ملاقات ہوئی تو کہنے لگا، حسن! تم نے تو اپنی مجلس میں بڑی ہنگامہ آرائی کرلی ہے، مجھے ڈر ہے کہ اس گرمی میں کہیں جل نہ جاؤ، اللہ کا کرنا کیا ہوا کہ اسی رات حسن کے گھر کو آگ لگ گئی، مریدوں نے اندر آنے کی کوشش کی مگر کسی کو اندر آنے کی ہمت نہ ہوئی۔ شیخ حسن رسن تاب اسی آتش خانہ میں جل گئے۔

حضرت خواجہ قطب الدین بختیار کاکی رحمۃ اللہ علیہ کے وصال کے بعد ایک عرصہ تک بارش نہ ہوئی، مخلوق خدا تنگ ہوگئی اور یہ سلسلہ کئی ماہ تک رہا،سلطان شمس الدین نے وقت کے مشائخ کو جمع کرکے بارانِ رحمت کی استدعا کی، قاضی حمید الدین نے سلطان کو کہا درویشوں اورمسکینوں کے لیے شاہی دعوت کا اہتمام کیا جائے اور اہل سماع کو بلاکر ایک عظیم الشان مجلس سماع منعقد کی جائے شاید اللہ کی رحمت نازل ہونا شروع ہوجائے۔ سلطان نے دعوت کی مجلس سماع برپا ہوئی تو بارانِ رحمت کی گھٹائیں برسنا شروع ہوئیں، اتنی بارش ہوئی کہ کئی سالوں سے اتنی بارش نہیں ہوئی تھی۔

حضرت قاضی حمیدالدین صاحب تصنیف بزرگ تھے آپ کی مشہور کتاب شرح اسمائے حسنیٰ اہل علم و فضل کے ہاں بے حد مقبول اور پسندیدہ ہے آپ کی وفات دہم ربیع الثانی یا بقول دیگرے نو ماہ رمضان المبارک ۶۷۸ھ میں ہوئی تھی۔

چو حمیدالدین حمید دو جہاں
رفت از دنیا و در جنت رسید
گشت سال ارتحالش جلوہ گر
تاج اہل دین ولی اللہ حمید
۶۷۸ھ

آپ کو محمد بن عطاء بھی کہتے ہیں، آپ کا ہندوستان کے متقدمین مشائخِ کرام میں شمار ہے علوم ظاہری و باطنی میں مکمل دسترس رکھتے تھے، اگرچہ خواجہ قطب الدین کے ساتھی تھے لیکن آپ کی نسبت خواجہ قطب الدین کی نسبت سے علیحدہ خاندان سہروردیہ سے تھی اور شیخ شہاب الدین سہروردی کے خلیفہ مجاز تھے۔

بعض مورخین کہتے ہیں کہ شیخ شہاب الدین سہروردی نے اپنے بعض مکتوبات میں اس بات کو لکھا ہے کہ ہندوستان میں میرے خلفاء میں سے قاضی حمیدالدین ناگوری رحمۃ اللہ علیہ بھی میرے ایک خلیفہ ہیں۔ واللہ اعلم، آپ کی طبیعت پر وجد و سماع غالب تھا، خصوصاً سماع کے آپ بڑے شائق تھے۔ آپ کے زمانہ کے دیگر مشائخ کرام میں سے کسی کو آپ جیسا سماع کا شوق نہ تھا، علمائے وقت نے آپ کے خلاف ایک دستاویز تیار کرکے بادشاہِ وقت کو پیش کی، آپ کے بعد شیخ نظامُ الدین اولیاء نے بھی سماع میں بڑے ذوق و شوق کا اظہار کیا تو علمائے وقت نے ان کے خلاف بھی تغلق بادشاہ کو ایک دستاویز پیش کرتے ہوئے اس محضر نامہ کا ذکر بھی کیا جو قاضی صاحب عشق و مستی سے سرشار ہوکر  کلام کرتے ہیں، اِن تصانیف میں سے ’’طوالع شموس‘‘ آپ کی مشہور تصنیف ہے جس میں اللہ تعالیٰ کے اسماء پر بحث کرتے ہوئے بڑی عجیب و بہترین باتیں لکھی ہیں جو دل مومن پر اثر کرتی ہیں۔ آپ علوم شریعت و طریقت کے حقائق پر مکمل دسترس رکھتے تھے، آپ کی طبیعت میں ظرافت اور خوش طبعی کا ذوق بھی تھا جس کی وجہ سے وقتاً فوقتاً عقیدت مندوں سے خوشی طبعی کیا کرتے تھے، بعض مورخین نے لکھا ہے کہ ایک دن قاضی حمید الدین، شیخ برہان الدین اور اپنے زمانہ کے مشہور تر قاضی کبیر کے ہمراہ گھوڑوں پر سوار ہوکر کہیں جا رہے تھے، آپ کا گھوڑا دوسرے دو ساتھیوں کی نسبت کم عمر اور قد میں چھوٹا تھا چنانچہ قاضی کبیر نے قاضی حمید الدین ناگوری سے کہا کہ آپ کا گھوڑا بہت چھوٹا ہے، آپ نے بطور ظرافت و خوش طبعی کے فرمایا کہ کبیر سے بڑا ہے (اشارہ تھا قاضی کبیر کی طرف کہ اگرچہ دوسرے گھوڑوں سے چھوٹا ہے لیکن آپ سے تو بڑا ہے، قاضی صاحب کی شیخ فریدالدین گنج سے بڑی محبت و الفت تھی۔

حکایت: فوائد الفوائد (مصنفہ میر حسن دہلوی) میں شیخ فریدالدین کے سماع کے ذوق کی ایک حکایت لکھی ہے کہ ایک مرتبہ آپ نے سماع کی خواہش کی تاکہ کوئی غزل و نعت وغیرہ سنیں، لیکن اتفاقاً اس وقت کوئی نعت خواں اور غزل گو نہ تھا تو آپ نے بدرالدین اسحاق سے فرمایا کہ قاضی حمید الدین ناگوری نے جو میری طرف خط بھیجا ہے وہ لے آؤ، چنانچہ بدرالدین (اس جگہ سے اٹھ کر ایک حجرے میں گئے) اور وہ بیگ اُٹھا کر شیخ کے پاس لے آئے جس میں بہت سے خطوط موجود تھے اور شیخ کے سامنے رکھ کر اس میں ہاتھ ڈالا، تو سب سے اولاً ان کے ہاتھ میں قاضی حمیدالدین کا خط آیا، چنانچہ  بدرالدین نے وہ خط شیخ فریدالدین کی خدمت عالیہ میں پیش کردیا موصوف نے بدرالدین سے فرمایا کہ اسے کھڑے ہوکر پڑھو، چنانچہ بدرالدین نے کھڑے ہوکر وہ خط پڑھنا شروع کیا، اس میں یہ لکھا تھا کہ فقیر حقیر، کمزور و ناتواں محمد عطا، جو درویشوں کا خادم و غلام ہے اور ان کے قدموں کی خاک کو اپنے سر اور آنکھوں پر برائے برکت ملتا ہے۔ بدرالدین نے ابھی خط کا اتنا ہی مضمون پڑھا تھا کہ شیخ فریدالدین پر حال و وجد کی کیفیت طاری ہوگئی، پھر خط کی یہ رُباعی بھی پڑھی گئی۔

آل عقل کجا کہ در کمال تو رسید
آں روح کجا کہ درجلال تو رسید
گیرم کہ تو پردہ برگفتی زجمال
آں دیدہ کجا کہ در جمال تو رسد

ترجمہ: (میں وہ عقل کہاں سے لاؤں جو تیرے کمال کی گہرائیوں تک پہنچ سکے اور وہ روح کہاں سے لاؤں جو تیرے جلال کی کہنہ اور حقیقت کو پاسکے، میں خوب سمجھتا ہوں کہ تو نے اپنے جمال سے پردہ اٹھالیا ہے لیکن وہ آنکھیں کہاں سے لاؤں جو تیرے جمال کو دیکھ سکیں)

زائر و پاسِ ادب رکھو ہوس جانے دو
آنکھیں اندھی ہوئی ہیں ان کو  ترس جانے دو

(حدائقِ بخشش)

قاضی صاحب کا مزار ایک اونچے چبوترے پر خواجہ قطب الدین کے مزار کے پاؤں کی سمت ہے، بعض مورخین نے لکھا ہے کہ آپ نے اپنے مزار کا چبوترہ جو خواجہ قطب الدین کے پاؤں کی سمت ہے خواجہ صاحب کے علو مرتبت کی بناء پر خواجہ صاحب کے مزارسے نیچا رکھنا چاہا لیکن آپ کی و فات کے بعد آپ کی اولاد نے اس بات کو پسند نہ کیا اور آپ کے مزار کا چبوترہ خواجہ صاحب کے مزار سے اُونچا بنوادیا، آپ کی وفات 625ہجری میں ہوئی۔

حکایت: شیخ نظام الدین اولیا سے منقول ہے آپ فرمایا کرتے تھے کہ اس شہر میں قاضی حمیدالدین ناگوری نے سماع (نعت گوئی) کا سکہ بٹھا دیا ہے اور جب قاضی لمنہاج الدین جو رجانی اس شہر کے حاکم وقت کی جانب سے قاضی مقرر ہوئے تو سماع  کو ان کے وجود سے بڑی تقویت پہنچی کیونکہ وہ خود سماع (نعت سننے) کے رسیا تھے اور حمید الدین ناگوری سے ان کا مخالف گروہ (جن کو مسئلۂ سماع سے قاضی حمید الدین سے اختلاف تھا) سخت برہم اور دشمنی رکھتا تھا، چنانچہ ان لوگوں نے قاضی حمید الدین سے بہت کچھ کہا سنا، مگر قاضی صاحب اپنے مسلک سماع میں ثابت قدم اور برابر مصرر ہے جس پر شہر کے قاضی نے یہ فیصلہ کیا کہ بحیریوں نے قاضی حمید الدین سے متنازعہ کیا ہے (یعنی حمید الدین حق بجانب ہے) اس کا اثر یہ ہوا کہ مولانا اشرف الدین بحیری شیخ ناگوری سے رنجیدہ اور کبیدہ خاطر ہوگئے اور یہ اثر آخر دم تک رہا، چنانچہ مولانا اشرف الدین علیل ہوجاتے ہیں اور آپ کی عیادت اور بیمار پرسی کے لیے شیخ ناگوری ان کے گھر پر تشریف لے جاکر حاضر ہونے کی اجازت حاصل کرتے ہیں تو مولانا شرف الدین  بحیری نے فرمایا کہ یہ وہی شخص ہے جو خدا کی ذات کو معشوق کہتا ہے یہ اس لیے تھا کہ عشق کی اللہ کی طرف نسبت کرنے کو علماء ممنوع کہتے ہیں اس لیے کہ عشق کی کیفیت میں بعض ایسی چیزیں ہوتی ہیں جن سے خدا تعالیٰ کی ذات منزہ و بری ہے، وہ چیزیں یہ ہیں جن کو کسی شاعر نے اس شعر میں جمع کردیا ہے۔

عشق میں کچھ یاس کچھ امیدواری چاہیے
کچھ تحمل چاہیے کچھ بے قراری چاہیے

چنانچہ مولانا بحیری رحمۃ اللہ علیہ نے ملنے سے انکار کردیا، اس وقت مولانا بحیری کے پاس مشہو رشاعر امیر حسن بیٹھے ہوئے تھے، انہوں نے فرمایا کہ قاضی صاحب کی معشوق سے مُراد محبوب ہے، غرضیکہ سلطان المشائخ فرماتے ہیں کہ یہ قصہ بڑا طویل ہے۔

حکایت: شیخ نظام اولیاء سے منقول ہے، آپ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ قاضی حمیدالدین ہمارے ہاں مجلس سماع میں تشریف لائے باوجود یکہ غزل خواں باکمال لوگ تھے لیکن سامعین میں سے کسی پر وجد و حال کی کیفیت طاری نہ ہوئی تو صاحبِ سماع نے لوگوں سے مخاطب ہوکر کہا کہ سامعین کے مابین اگر کسی کے درمیان دشمنی اور ناراضگی ہے تو باہر جاکر باہمی مفاہمت و صلح و صفائی کرلیں تمام لوگوں نے یوں کیا اور پھر واپس آکر سماع میں مشغول ہوئے لیکن پھر وجد طاری نہ ہوا تو صاحب سماع نے پھر کہا گر ہم میں کوئی اجنبی آدمی موجود ہے تو وہ اس محفل سے نکل جائے، یہ بھی کیا گیا لیکن اس کے بعد بھی سماع میں کوئی کیف و سرور نہ آیا، آخر کار سب لوگ  محفل سماع ختم کرکے توبہ و استغفار میں مشغول ہوگئے، اسی دوران میں  ایک صاحب کمال درویش وہاں تشریف لائے انہوں نے ایک شعر پڑھا جس کے سنتے ہی سب پر وجد کی کیفیت طاری ہوگئی، اسی اجتماع میں ایک صاحب پر تو اتنا اثر ہوا کہ اسی وقت اس نے جان جانِ آفریں کے سپرد کردی، قاضی حمیدالدین کی مایہ ناز تصنیف ’’طواثع سموس‘‘ حقیقت میں ایسی کتاب ہے کہ جس کے اندر حقیقت کے اسرار کے مضامین موج در موج اور معانیٔ طریقت فوج در فوج لکھے گئے ہیں اس کتاب میں سے اختصار و انتخاب مشکل ترین امر ہے، اس کے تمام تر مضامین اپنی متانت و حرارت، مشاکلت و مشابہت میں ایک انوکھے اسلوب سے رکھے گئے ہیں، کتاب کے شروع میں اسم ’’ھو‘‘ کی بڑی تفصیل و بسط کے ساتھ شرح کی گئی ہے اور اس اسم کے اتنے معانی بیان کیے گئے ہیں جن کو کاتب احاطہ قلم میں لانے سے قاصر ہے، ان میں سے مشتِ نمونہ از خروارے چند معانی تحریر کرتا ہوں۔

مولف قدس   سرہ فرماتے ہیں، کہ ’’ھو‘‘ حرفِ اشارہ ہے اور اِشارہ مشارلیہ کو مشاہدہ کرنے کے بعد کیا جاتا ہے یا اس کے بارے میں کوئی خبر موصول ہو، اس تقریر کے بعد  نتیجتاً یوں کہا جائے گا کہ جب ’’ھو‘‘ اسم اشارہ کو اللہ کی ذات کے لیے استعمال کرتے ہیں تو مطلب یہ ہوگا کہ اللہ تعالیٰ کا ہر کام ایسا ہے جسے انسان دیکھ رہا ہے، جیسے عرف و عام میں عموماً کہا جاتا ہے کہ اس نے کہا اور اچھا کیا، جیسے کہ حضرت ابراہیم خلیل اللہ صلوٰۃ علیہ و علیٰ نبینا نے دو عالم سے اعراض فرماتے ہوئے جمیع ظواہر سے بایں الفاظ برأت کی کہ (جن کو تم خدا کا شریک سمجھتے ہو میں ان سے بری ہوں) اور قطب و جگر کی تمام تر کیفیات کو خدا تعالیٰ کی طرف متوجہ کیا جس کو بایں الفاظ بیان کیا گیا ہے (میں اپنا رخ اس ذات کی طرف کرچکا ہوں جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا فرمایا ہے) ابراہیم علیہ السلام نے دو عالم سے علیحدگی و جدائی کے پوری مودت و دوستی کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی جانب رُخ کیا، جب لوگوں نے آپ سے دریافت کیا کہ آپ کس کی جانب متوجہ ہو رہے ہیں تو آپ نے صاف صاف یوں فرمادیا کہ (اپنے اس پروردگار کی طرف جو مجھے کھلاتا اور پلاتا ہے) اس ’’ھو‘‘ اسمِ اشارہ میں اگرچہ متعدد متفرق مواضع و مقامات ہیں لیکن حروف اضافات سب کے سب اس کی دلیلی بین ہیں کہ یہ تمام تر مشار الیہ کے لیے آتے ہیں اسی لیے حضرت ابراہیم علیہ السلام بارگاہ ربُ العزت کی شمعِ نورانی کے حال  اور سلوک کی دونوں حالتوں میں جامۂ خلعت پہن کر خلیل اللہ ہوگئے، اور صاف طور پر یوں فرمادیا کہ (میں اپنے رب عزوجل کی طرف جاتا ہوں) علاوہ ازیں مصنف علام نے لکھا ہے کہ کائنات کے تمام  ذرات عالم سلوک میں اللہ تعالیٰ ہی کی جانب ہمہ تن متوجہ رہتے ہیں، کیونکہ ہر ایک یہ چاہتا ہے کہ میں کمال حاصل کرلوں اور کمال خدا کی ذات کے سوا کسی کو حاصل نہیں، اسی لیے اس نے ہر ایک چیز کو عدم سے پیدا فرمایا اور تمام کو اپنے نور کی جانب متوجہ کیا۔

لوگوں نے کسی دانا و حکیم سے پوچھا کہ دنیا کے تمام ذرات کس ذات کی جانب متوجہ ہیں تو حکیم نے جواب دیا، اس ذات کی طرف جو تمام چیزوں کو عدم سے وجود میں لاتی ہے۔

گرروئے دلم بسوئے اوخواہدشد
حال دل خستہ ام نکو خواہدشد
قصہ چہ کنم رشتہ امید ولم
یا اوچویکے شوددوتو خواہد شد

ترجمہ: (اگر میرا دِل اس کی طرف متوجہ ہوجائے تو اس کی خراب حالت درست ہوجائے، میں قصہ کیا بیاں کروں، حقیقت یہ ہے کہ امید کا رشتہ میرے دل میں ہے اور جب اس سے مل کر ایک ہوجائے گا تو اس وقت تو وہ ہوجائے گا اور تیر ااپنا وجود نہ رہے گا)۔

لی حبیب خیالہ نصب عینی
واسمہ فی ضمائری مکنون
ان تذکرتہ فکلی قلوب
وان تاملتہ فکلی عیون

ترجمہ: (میرا ایک دوست ہے جس کے تصور میں گم رہنا میری زندگی کی نصب العین ہے اور اس کا اسم گرامی میرے دل کی گہرائیوں میں محفوظ ہے (جب) اس کی یاد آتی ہے تو دل بے قرار ہوجاتا ہے اور اس کے دیکھنے کے لیے آنکھیں بے چین ہوجاتی ہیں)

میرے دوست! سلوک کے راستہ پر چلنے کے لیے جمعیت خاطر بہرحال محال ہے جس کی دلیل ذاھب الی ربی سیھدین ہے، اگر سالک محض سلوک کے راستہ پر چل کر ہی خدا تک پہنچ جائے اور اس کو خدا کی مدد کی ضرورت نہ ہو تو سیھدین کیوں فرماتے اور وجد و حال کی کیفیت میں خدا تعالیٰ تک رسائی محال نہیں بلکہ محال کہنا گمراہی ہے جن لوگوں نے انا الحق وانا سبحانی کہا اس کا سر یہی ہے کہ ان پر وجد کی کیفیت طاری ہوگئی تھی (اور خدا تعالیٰ نے انہیں یہ کہا کہ انا الحق، تو وہ وجد میں آکر اس کلام کو خدا کی طرف منسوب کرنے کے بغیر کہنے لگے اور سننے والوں نے سمجھا کہ یہ اپنے بارے کہہ رہے ہیں حالانکہ وہ خدا کے کلام ہی کو دہراتے ہیں۔

بخدا ’’انا‘‘ کہنے کے مقام  پر ’’ھو‘‘ کہنا گمراہی ہے اور جس جگہ ’’ھو‘‘ کہنا ہو وہاں ’’انا‘‘ کہنا نا جائز و غیرہ مشروع ہے۔

بخدا، بوقت اشارہ تین چیزوں کا خیال از بس اور ضروری ہوا کرتا ہے۔ اشارہ مشارالیہ۔ مشیر (اشارہ کرنے والا) ان تینوں چیزوں کا وجود اس لیے ضروری قرار دیا گیا تاکہ اِشارہ درست ہوجائے اور اس صورت کے اندر تینوں کا وجود تسلیم کرنا ہوگا جو وحدت کے منافی اور عیسائیوں کے مسئلہ تثلیث کے مطابق ہے، ان ثلاثہ کو تسلیم کرنے سے نتیجتاً توحید سے دوری اور بعد ہوتا ہے، اسی لیے (بعض اہل تصوف کے نزدیک) اس کی طرف اِشارہ کرنا شرک ہے اور اس کے علاوہ کسی اور کو مستحق عبادت سمجھنا جھوٹ و افترا ہے اس  کی حقیقت کو اس رباعی میں بیان کیا گیا ہے۔

آنراکہ بسوائے تو اشارت باشد
ازمعنی عزتت عبارت باشد
بامایہ بسیار زسود توحید
بیچارہ ہمیشہ درخسارت باشد

ترجمہ: (جو شخص تیری طرف اشارہ کرے اور اس کے اس اشارے سے تیری برتری ہی مُراد ہو، تو وہ توحید کے سرمایہ سے سود مند ہونے کے باوجود خسارہ میں رہا)

میرے دوست! اشارہ چند چیزوں کے ساتھ کیا جاتا ہے جس کی تفصیل یہ ہے کہ اشارہ تقریباً تین قسم پر ہے، اولاً اشارہ حسنی جو محسوسات کے ساتھ، ثانیاً اشارہ و ہمی جو موہومات کے ساتھ ثالثاً اشارہ عقلی جو معقولات کے ساتھ کیا جاتا ہو، اور اللہ تعالیٰ  کی کبریائی اور توحید کو ان تینوں قسموں سے کوئی علاقہ و تعلق نہیں کہ اس کی طرف اشارہ کیا جائے، اس صورت میں اس کی طرف اشارہ کرنے سے شرک  کے علاوہ اور کیا ہوگا، پھر اشارہ کی دو قسمیں ہیں، یا تو اشارہ غائب کو کیا جاتا ہے یا حاضر  کو، اب بتاؤ کہ تم اللہ کو کیا سمجھ کر اشارہ کرتے ہو، اگر اسے غائب سمجھ کر کرتے ہو تو یہ عقلاً اور نقلاً ناجائز اور غیر مسموع ہے اور اگر حاضر سمجھ کر کرتے ہو، تو حاضر نظر آتا ہےا ور اللہ کی صفت یہ ہے لا تدرکہ الابصار ترجمہ: یعنی اس کو دیکھا نہیں جاسکتا، بلکہ اس نے ہم کو دیکھنے کی طاقت اور قوت عطا فرمائی ہے وہی ہم کو دکھاتا ہےاو رسمجھاتا ہے لہٰذا اس کی طرف اِشارہ کرنا قلبی غفلت سے تعبیر کیا جائے گا، جس دل پر  لا الٰہ الا اللہ کی تجلی کی عظمتیں موجزن ہوتی ہیں وہ یاد داشت کی قیود سے بالا تر ہوجاتا ہے اور جب دل سے اللہ تعالیٰ کی یاد نہ کی جائے تو لازماً زبان سے بھی اس کی یاد اور ذکر سے انسان غافل ہوجاتا ہے جس کی وجہ سے انسان ذلت و ہلاکت میں آجاتا ہے، کیونکہ جو اس کے ذکر سے دور ہوجاتا ہے وہ اس کی ذات سے بھی دور ہوجاتا ہے اس لیے کثرت کے ساتھ اللہ کا ذکر کیا جائے

کسے سرش نمی داند زَبانِ در کش زَبانِ درکش

ترجمہ: اس کے اسرار و بھیدوں کو کوئی نہیں جانتا اس لیے زبان کو بند رکھا جائے)

میرے دوست! تو خاموش رہ اور اپنی ذات کو بھول جا ، اس فراموشی کی یاد میں عجیب و کیف و لذت ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے واذکر ربک اذا نسیت ترجمہ: (تو اپنی ذات کو بھول جا اور خدا کی یاد میں مشغول ہوجا) ایک دن شبلی نے خود کو فراموش کرکے خاموشی اختیار کی اور لب پر لب کو رکھ لیا، اور اسی حالت میں ان پر ایک نماز کا وقت گزر گیا اور ہوش میں آئے تو اس کیفیت کا درد پُر لطف تھا اور یوں کہہ رہے تھے۔

نسیت الیوم من عشقی صلاتی
فلا ادری غدائی من عشائی
فذکرک سیدی وکل و شربی
ووجھک ان رایت شفاء وائی

ترجمہ: عشق کی مستی کی وجہ سے آج میں ایک نماز کو بھول گیا، چنانچہ اسی وجہ سے مجھے صبح اور شام کا ہوش نہ رہا اے میرے آقا و مولیٰ آپ کا ذکر میرے کھانے پینے کے قائم مقام ہے اور آپ کے چہرۂ اقدس کا دیدار تمام امراض کے لیے مکمل شفا ہے)۔

خوب سمجھ لو! کہ اسم ’’ھو‘‘ ایک حرف ہے اس میں جو واد نظر آتی ہے وہ پیش کو کھینچ کر پڑھنے سے پیدا ہوئی ہے، اس لیے بھی یہ اسم مکرم وحدت مسمٰی کی دلیل ہے اس کے علاوہ کسی دوسرے اسم میں ایسی مشابہت نہیں ہے۔

خدا کی قسم، یکتا شہنشاہ کا  اسم اعظم بھی یکتا و یگانہ ہی ہونا چاہیے تاکہ اس کے بے حد و بے شمار معانی کا ادراک ہوسکے، حرف (ھ) جب الف سے ملتا ہے تو محبوب کی نداء کی طرف مضاف ہوتا ہے یعنی (ھا) یہ وہ آواز ہے جس کے ذریعہ محبوب اپنے محب کو آواز دیتا ہے، جیسا اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں یا ایھا الذین اٰمنوا ترجمہ: (اے ایمان والو!) حرف (ھ) کے بعد جب کوئی حرف علت آتا ہے تو وہ محبو کی نداء کی طرف مضاف ہوتا ہے جیسے ’’ھو‘‘ جس کے ذریعہ محبوب اپنے محب کو آواز دیتا ہے اور خدا کی نداء اپنے محبین کو وہ نداء ہے جو مصیبت زدہ عاشقوں کو اپنی طرف بُلانے کے لیے ہوا کرتی ہے تاکہ وہ اللہ کے احکام کے امنثال کی طرف ہمہ تن متوجہ ہوکر دوڑیں جس کے لیے عموماً اسم (ھا) آتا ہے۔

عاشق لوگ اپنے دل میں خدا کو یاد کرتے ہیں تاکہ اس کے ملنے کی خوشبو سے بہرہ ور ہوں تو ان کے دل سے اسم ’’ھو‘‘ نکلتا ہے، اور جب عالم عشق میں ذوق و شوق کی جانبین سے زیادتی ہوتی ہے تو ہائے اور ھو کی صدائیں بلند ہوتی ہیں جو از خود عظیم و بلند ترین مقام ہے۔

آنجا کہ عشق یار بوئے باشد
لا بد باشد کہ گفتگوئے باشد
و آنجا کہ زشوق جستجوئے باشد
بی شبہ رہرد وہائے ہوئے باشند

 

ترجمہ: (جس میں یار کے عشق کی بو ہوگی تو اس سے گفتگو بھی ضرور ہوگی، اور جہاں شوق کی جستجو ہوگی تو وہاں دونوں طرف سے ہائے و ہو کی صدا بھی ہوگی)

 

اے عزیز خوب یاد رکھو! کہ اسم ’’ھو‘‘ موجودہ ازلی اور ہست لم یزلی کی جانب اشارہ ہے۔ جو مستجمع لجمیع صفات کمالیہ ہے اور ہمہ قسم کے نقائص و  زوال سے پاک ہے وہ خدا اس طرح موجود ہے جس کے ازلی ہونے کی ابتدا نہیں اور ایسی ذات ہے جس کے ہمیشہ رہنے کی انتہا نہیں، اور یہی وہ پہلا اسم ہے جو اپنے تمام غیبی اسرار کے ساتھ معرض وجود میں آیا جیسا کہ سورۃ اخلاص میں ھو اللہ احد سے ظاہر ہے۔

’’ھو‘‘ وہ اسم اشارہ ہے جس کے انوار کی تجلیات سے خدا تعالیٰ کے خاص خاص اسرار ظاہر ہوتے ہیں، اور جب یہ اسم اشارہ تھا تو مشارالیہ کو بیان کی وضاحت کے لیے اسم اللہ کو اس کے ساتھ لگا دیا ’’ھو اللہ‘‘ ہوگیا۔ ارواح خاصہ پہ اللہ تعالیٰ کے انوار کا پرتو اور عکس پڑتا ہے، اور جب انسانی عقل کی نورانیت پر خداوندی انوار غلب آتے ہیں تو بیان کی وضاحت کے لیے ہو کے بعد اسم احد کو بڑھا دیا جاتا ہے تاکہ اہل تحقیق کے دلوں پر وحدانیت کی تجلیاں رونما ہوتی رہیں، اور جب لوگوں کی انانیت (میں) اور تعلی کو انوار وحدانیت نے جلا کر راکھ کردیا تو اس کی وضاحت کے لیے اسم صمد کا اضافہ کردیا، خلاصہ یہ ہے کہ اولیاء اللہ پر انوار صمدیت کی تجلیات وارد ہوتی رہتی ہیں، اور جب صمد سے لوگوں کی انانیت اور ان کے تمام  رسوم کا قلع قمع ہوتا تھا تو اس کی مزید وضاحت کے لیے لم یلد ولم یولد ولم یکن لہ کفوا احد ترجمہ: (اللہ تعالیٰ کا نہ کوئی بیٹا ہے اور نہ وہ کسی کا باپ، اور نہ اس کا کوئی ہمسر و ہم پلہ ہے) کی حفاظت کا خود اس نے اضافہ کردیا، اور جب کہ صفات مذکورہ بالا کی تجلیات اور انوار نے تمام مخلوق کو دائرۂ عبودیت اور ان صفات نے تمام تر مخلوق کو بطیّب خاطر دربار الٰہی میں پہنچا دیا تو سب کی منتہائے نظر ابتداء پر پڑی، تو انہوں نے ’’ھا‘‘ کا دائرہ دیکھا جو تمام کو اپنے احاطہ میں لیے ہوئے ہے، اگرچہ تحریر و عبارت کے اعتبار سے اللہ کے دوسرے اسماء بھی اسی کی طرح اسم ہی ہیں، لیکن بظاہر اسی ھا کے اسم کو دیکھ کر مخلوق نے کہا کہ یہ اسم اعظم ہے جو تمام اسماء کی اصل ہے اور جس طرح بوجہ ابتدا کے  سورت فاتحہ کو ام الکتاب کہتے ہیں اسی طرح اس اسم کو ام الاسماء کہتے ہیں۔114

آخری بار پھر ہم گوشگزار کرتے ہیں کہ اسم ’’ہ‘‘ پروردگار کے پُرجلال خطاب کا دیباچہ ہے، اور سورۃ فاتحہ اس کے تمام تر اوصاف و کمال سے لبریز ہے، اسم ھو کو یاد کرنے والا اگر صاحب بصیرت ہو تو اسے تمام اسرار کی خبر ہوجاتی ہے، غلبہ ہویت کے اعتبار سے اگرچہ وہ بظاہر حیران و پریشان نظر آتا ہے لیکن سر زمین عشق میں اتنا سرگرداں ہوتا ہے کہ اسے خود اپنا علم بھی نہیں ہوتا، بلکہ حاضر و غائب کی تمام قیود سے بالا تر ہوکر اسے اشارہ کرتا ہے اور اس کے اسرار کی نظر ہمیشہ اس کی طرف لگی رہتی ہے۔

لا الٰہ الا اللہ محمد رسول اللہ

 ایک صاحب طریقت بڑے بزرگ کا ارشاد ہے کہ عشقِ خداوندی میں ایک سرمست کو دیکھ کر میں اس کے پاس پہنچا تو اسے دیکھا کہ و ہ بحر شہود میں غرق اور بحر شہود میں غوطے لگا رہا ہے، میں نے اس سے پوچھا آپ کا نام کیا ہے؟ جواب دیا، ھو میں نے پھر پوچھا کہ آپ کون ہیں؟ جواب دیا ہو، پھر میں نے پوچھا کہ آپ کہاں سے تشریف لائے ہیں، جواب ملا ہو، میں نے پھر عرض کیا اب آپ کہاں جانے کا اِرادہ رکھتے ہیں، جواب میں فرمایا ہو، ہر چیز کا جواب ہو سنتے سنتے آخر کار میں پریشان ہوگیا اور مجیب کی مراد کو  نہ سمجھ سکا، تو پھر میں نے عرض کیا کہ ھو سے آپ کی مُراد کیا ہے، کیا ھو سے مُراد خدا تعالیٰ ہے جس کا ملک  ہے اور ہمیشہ رہے گا، یہ سنتے ہی اس بزرگ نے ایک چیخ ماری، اور مُردوں کی طرح اس طرح گِر پڑا کہ پھر نعرہ نہ لگا سکا اور ان کی روح قفسِ انصری سے پرواز ہوگئی۔ نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم جب اللہ تعالیٰ کے نُوری سمُندر میں تیرتے (یعنی ذکر اللہ کرتے) تو عالم خودی سے دور ہوکر محبوب کے انوار میں مستور ہوجاتے اور جب آپ کو اس سمندر سے بڑی موجیں باہر لے آتیں اور آپ عالم شہود میں آتے تو اپنے پر غیریت کے اسباب کو رونما دیکھ کر یوں فرمایا کرتے تھے۔

اے اللہ عزوجل! میرے دل میں نُور کرے دے اور میری آنکھوں کو نورانی فرمادے، اور میرے کانوں کو نُور دیدے میرے اُوپر، نیچے، سامنے، پیچھے نُور ہی نُور فرمادے اور مجھے تمام کو نُور بنادے۔

صبح طیبہ میں ہوئی بٹتا ہے باڑا نُور کا
صدقہ لینے نُور کا آیا ہے تارا نُور کا
تیر نسلِ پاک میں ہے بچہ بچہ نُور کا
تو ہے عینِ نُور تیرا سب گھرانہ نُور کا

(حدائقِ بخشش)

اے اللہ! اپنا رحمانیت کا دروازہ کھول دے اور ما رأنی (کہ مجھے کوئی نہیں دیکھ سکتا) پر نظر فرما تاکہ تیرے دیدار کے جلالی اَنوار کے پر تو میں جلنے سے پہلے ہم تیرے دیدار کی تسبیح سے مشرف ہوسکیں اور قبل اس کے کہ حالتِ بے خودی میں تیرے حضور پیش ہوں، تیرے صفحہ جمال کی چمک و دمک سے مجسمہ نور بن جائیں۔

اس مفہوم پر غور و اِدراک کے لیے ذوقِ سلیم کی ضرورت ہے تاکہ اللہ کا جمال نصیب ہوسکے، اے دوست! جس طرح اسم ’’ھو‘‘ کا مسمی تمام کیفیات سے منزہ اور ابتدا و انتہا کے وصف سے بالا تر ہے اسی طرح اسم ’’ھو‘‘ بھی تمام مخارج از قسم ابتدا و انتہا سے بالا تر و مقدس ہے، کوئی ابتدا اس تک رسائی حاصل نہیں کرسکتی اور کسی انتہا کی وہاں تک دسترس نہیں، اللہ کی سب سے بڑی صفت یہی ہے کہ اس کی اولیت سے تمام تر ابتدائیں عاجز او راس کی انتہا سے ہمہ قسم کی نہایت و انتہا قاصر ہے۔

اور دائرہ (ھ) ھو جب مل جاتا ہے تو بلا ہدایت و نہایت پر دردگار کی ھویت کی جلالت کا پتہ دیتا ہے اور اس وقت تک خبر دار کرتا رہے گا جب تک کہ اس دائرہ ھ کی ابتدا اور انتہا ظاہر نہ ہوجائے، اور جب اس (ھ) کے دائرہ کو بغور دیکھ گئے تو اس کے ہر جزو میں دوسرے دائرے بنانے کی صلاحیت کو اجاگر  پاؤ گے، اور اسی جزو میں انتہا بھی موجد ہے اس لیے (ہ) کا پورا دائرہ اپنی صلاحیت کے لحاظ سے اولیت کا حقدار اور نہایت و انتہا کا مستحق ہے، اس نسبت کے اعتبار سے اول بھی ہے اور آخر بھی، اور حقیقت اجتماع کے پیش نظر غیر اللہ اور ماسوی اللہ میں اولیت اور انتہا کا تصور ہی نہیں کیا جاسکتا، اسی نہج و طریق پر بھی اسم ھو اصل اور عین مسمی ، مگر یہ راز کی بات ہے جو اکثر لوگ کے سمجھنے کی نہیں۔

رباعی

آں حلقہ کہ اول است و آخر
و آں نقطہ کہ باطن است و ظاہر
خوا ہی کہ بہ بینی اے نکو روئے
درحلقہ ہا نظر کن در آخر

 

ترجمہ: (وہ حلقہ جو اول اور آخر ہے اور وہ نقطہ جو ظاہر و باطن میں وجود رکھتا ہے، اے نیک بخت اگر آپ اسے دیکھنا چاہتے ہیں تو (ہ) کے دائرہ و حلقہ کو دیکھ لو) حمد و ثنا اللہ تعالیٰ ہی کے لیے ہم ہم اول سے کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ آخر تک ہمارے ساتھ ہے، پروردگار عالم واجب الوجود  ہے جس کے انوار و تجلیات کی روشنی عالم شہود میں ظاہر ہے (ہا) کا دائرہ اپنی صفت  صلاحیت میں وہی (ھو) ہے جو اول و آخر میں موجود ہے، اس تقریر سے اسم ’’ھو‘‘ کی عظمت و جلالت ظاہر ہوتی ہے۔

میں عالم بے خودی میں مضمون کی طوالت کی سیل رواں میں بہہ کر اصل مضمون سے ہٹ چکا ہوں اس لیے اب پھر اصل مضمون کی طرف عود کرتا ہوں، اے دوست! دل کے کانوں سے سن اور اس بات کو یاد رکھ کہ ’’ھو‘‘ اگرچہ حلق سے نکلتا ہے مگر حلق کو چھوتا نہیں، جب اس اسم کو حلق سے کوئی علاقہ نہیں، حالانکہ حلق ہی سے صادر ہو رہا ہے اسی طرح) اس کے پڑھنے والے کو بھی ضروری ہے کہ وہ اس جہان میں رہتے ہوئے اس سے کوئی تعلق نہ رکھے تاکہ وہ اس علیحدگی کی بدولت دیدار الٰہی عزوجل سے مستفیض ہوسکے، نیز یہ بات بھی قابل غور ہے کہ عربی زبان میں کوئی اسم دو حرفوں سے کم کا نہیں ہوتا، اسی لیے ہمارے اس جہان میں فرد مطلق کا وجود نہیں ملتا، اور جب اہل بصیرت نے احدیث کے معنی اسم ’’ھو‘‘ میں دیکھے تو اپنے دل کو اس کی جانب متوجہ کرنے کے بعد تو فوراً کہنے لگے کہ اس اسم کے معنی وہی فرد مطلق کے ہیں جس کا وجود ہمارے اندر نہیں پایا جاتا، بیت

حرفی کہ مراد ما ازد او باشد
بردار نظر ز حرف تا اوباشد

 

ترجمہ: (یعنی جب حروف سے ہمارا مطلوب، محبوب ہی ہو تو پھر ان حرفوں سے نظر کو اٹھالیا جائے تاکہ براہ راست محبوب کو دیکھا جاسکے) اس مناسبت سے معلوم ہوا کہ اسم اور مسمی ہر دونوں بلا شک و شبہ ایک ہی ہیں، اے دوست! حرف (ھ) ہماری جان سے نکل کر عالم اعلیٰ کی جانب چلا جاتا ہے اور پھر اسرار مخفیہ کے ساتھ اس دنیا کی جانب واپس آتا ہے، اس کا کسی جگہ حلوں اور کسی مکان پر علاوہ لب اور زبان کے نزول نہیں ہوتا، اور لب و زبان جو دل کے وکیل ہیں وہ اس کلمہ کو نہیں کہتے جب تک کہ دل اس کے اسرار معلوم نہیں کرلیتا، عارفین انوار صمدیت کو اس بات کا معلوم کرلینا از بس ضروری ہے کہ یہ اسم تمام قسم کے تغیر تبدل سے منزہ ہے، اسی طرح اس کا مسمی بھی کسی مکان کی آرائش اور کسی زبان کی زیبائش سے منزہ اور بالا تر ہے یہ بہت بڑا راز ہے۔

اے عزیز! ’’ھو‘‘ اسم اشارہ ہے جس کا رُخ ہمیشہ مشارالیہ کی جانب رہتا ہے۔ اور اسم اشاربہ کا رُخ مشارالیہ  کے اوصاف اور محاسن کی جانب نہیں ہوا کرتا اور یہ بات اس بات کے ہم معنی ہے جس کو عارفین اور سالکین بایں طور پر تعبیر کرتے ہیں کہ عشق اس کی ذات سے ہوتا ہے اس کی صفات سے نہیں، خاص کر وہ ذات جس کا کمال اس کی ذات سے زائد ہو (اور وہ اللہ ہی کی ذات ہے) اور یہ دقیق اور غامض مفہوم اہل تحقیق حضرات کی اس بات کے لیے ہے کہ اس کی ذات کا وجود صفات سے مقدم ہے اور ذات کا صفات پر مقدم ہونا اس طرح کا ہے جس سے ذات اور صفات میں غیریت اور دوی ثابت نہیں ہوتی، بلکہ یہ تقدیم دراصل وحدت کو ثابت کرتا ہے تاکہ اسرار توحید کے ذریعے اضافوں کا اسقاط ظاہر ہوجائے۔

اے دوست! اسم ’’ھو‘‘ وہ اسم ذات ہے جو ’’مطلق‘‘ معلوم اور کسی سے مشتق نہیں، کیونکہ مشتق وہ اسم ہے جو غیر کے اشتراک  سے خالی نہ ہو اور جس چیز میں غیر کی شرکت اور اشتراک آجاتا ہے تو اس میں وحدت کی بنیادیں کھوکھلی ہوجاتی ہیں، تمام عُشاق کا اس بات پر اتفاق ہے کہ اسم اعظم (ھ) کسی سے مُشتق نہیں ہے اور وحدت کی بنا پر مطلق بھی نہیں، اس  نسبت سے بھی اسم اعظم ہو ہی ہوا۔ جیسے  ہوا اور خوشبو میرے بھائی! فرد مطلق وہ ہوتا ہے جس کی کسی چیز کے واسطہ سے صفت بیان نہ کی جاسکے اور یہ تمام دُنیا کا تسلیم شدہ قاعدہ ہے کہ ہر چیز اپنی صفت ہی کی وجہ سے دوسری چیزوں سے ممتاز و مختلف ہوا کرتی ہے اور اسی وجہ سے موصوف اور صفت میں یہ فرق بیان کیا جاتا ہے کہ موصوف اپنی صفت سے مستغنی ہوتا ہے اور صفت اپنے موصوف کی محتاج ہوتی ہے۔

 خلاصۂ کلام: خلاصہ کلام یہ ہے کہ کسی چیز کی عین ذات سے اس کے حالات بیان نہیں کیے جاسکتے، اسی چیز کو سمجھاتے وقت دوسری چیز سے تعبیر کرتے ہیں۔ اس صورت میں تعداد اور کثرت لازم آتی ہے، اور تعدد و کثرت وحدت کے خلاف ہے۔

اے دوست! جب ہماری بیان کردہ تقریر کو ذہن نشین کرلیا جائے گا تو یہ بات خود بخود واضح ہوجائے گی کہ اللہ تعالیٰ کی ذات بے کیف و روشناس کرانے کے لیے تمام اسمائے مشتقہ اور تمام معلومات عاجز اور قاصر ہیں، اور صرف اسم اعظم ’’ھو‘‘ فرد مطلق کی وحدانیت  کی حقیقت کی نقاب کشائی کر رہا ہے اور اللہ تعالیٰ کے برحق صمد بے نیاز ہونے کا یہی اسم (ھو) ہی مظہر ہے لَا اِلٰہَ اِلَّا اللہُ، اے دوست! تمام اسمائے مشتقہ صفات پر دلالت کرتے ہیں اور صفات کو صرف اضافت کے ذریعہ سے پہچانا جاتا ہے مگر قاعدہ کلیہ یہ ہے کہ تمام اضافتوں کو توحید ختم کردیتی ہے۔

نکو گوئے نکو گفت است در ذات
کہ التوحید اسقاط الضافات

ترجمہ: (کسی اچھے کہنے والے نے اللہ تعالیٰ کے بارے میں کیا خوب کہا ہے کہ توحید ہی ایک وہ چیز ہے جو تمام اضافتوں کو ختم کردیتی ہے) پر لطف بات یہ ہے کہ جو اسم کسی سے مشتق ہوتا ہے تو مشتق اور مشتق منہ  دونوں پر طلب کے زمانے میں طلب گار کی نظریں پڑی رہتی ہیں اور عقل کا حق یہ ہے کہ جب اس کی کسی پر نظر پڑے جب تک اس کی حقیقت کا ادراک نہ کرے دوسری طرف اپنا رُخ ہرگز ہرگز نہ کرے، اور اس دوسری چیز کو ذریعہ نجات نہ بنائے ورنہ غیر میں مشغول ہوجانے سے اصلی چیز پر پردہ پڑ جانے کا خطرہ ہے اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ اسم ’’ھو‘‘ کسی سے مشتق نہیں تاکہ طلب گار کو دور بینی سکھائے، اور خود اپنے وہم و گمان پر یقین کرنے لگے، بلکہ اسم ’’ھو‘‘ اشتقاق سے منزہ ہے جو طلب گار کی آتش عشق کو بڑھکاتا اور ماسوی اللہ سے جدا کرکے مقصود حقیقی تک پہنچاتا ہے لا الٰہ الا اللہ کا پروردگار نے امر فرمایا ہےا ور قل ھو اللہ احدٌ (اس میں اللہ کے تین نام ہیں اسی طرح) طریق عشق پر چلنے والوں کے بھی تین درجے اور مقام ہیں (1) ظالم (2) مقتصد (3) سابق اور اسی طرح نفس بھی تین قسم پر ہے (1) امارہ (2)لوّامہ (3) مطمئنہ اور اسم ’’ھو‘‘ ان لوگوں کے نصیب میں ہے جو سابق بالخیرات کے مصداق ہیں اور نفس مطمئنہ کے اہل اور انوار احدیث کے پر تو میں آکر خاکستر ہوچکے ہیں اور ماسوی اللہ کو دیکھنے سے انہوں نے اپنی آنکھیں بند کرلی ہیں تمام دنیا سے بے خبر ہوکر عالم استغراق میں مست ہیں اور انوار الٰہی کی لطافتوں اور مہربانیوں سے لطف اندوز ہو رہے ہیں، ان میں سے ہر ایک فرد اپنے دوسرے سے بے خبر و بے تعلق ہے، وہ عزیزوں اور تمام انسانوں دنیا ومافیہا کو معدوم اور ختم ہونے والی جانتے ہیں۔ کیونکہ اس جہان کی تمام چیزیں حادث ہیں جو بہت جلد ختم و ہلاک  ہونے والی ہیں۔

اے دوست! ’’ھو‘‘ کا ہمیشہ درد رکھنا منتہی اور سابق بالخیرات لوگوں کا کام ہے جو ہزار جان سے خدا تعالیٰ کے عاشق ہیں کیونکہ اسم ’’ھو‘‘ اسم اللہ کا منتہی و خلاصہ ہے، اس حقیقت سے وہی لوگ آشنا و واقف ہیں جو اللہ تعالیٰ کے عشق میں مستغرق ہیں۔

اے دوست! جس کو عالم ہیبت میں محبوب نے اجازت بخشدی وہ امانیت و تکبر سے کنارہ کش ہوکر مشاہدہ جلال کے غلبوں سے اپنی ذات کو پگھلاتا اور مقام فنا تک پہنچ جاتا ہے اور خدا تعالیٰ کے انوار کے سایہ تلے آجاتا ہے پھر مقامات و کرامات، بیہوش و ہوش نفی و اثبات، بقا و فناء امید و خوف، بسط و قبض، نفل و فرض، محبت و ہیبت خوف اور سر ور کی نسبت اس کی طرف نہیں کی جاسکتی۔ جب محبوب بے نشان ہے تو تم بھی بے نشان ہوجاؤ اور پھول کی خوشبو کی طرح پھول میں پوشیدہ اور ظاہر نظر آؤ۔

نُور کا شعلہ: میرے ایک دوست نے جو طریقت اور حقیقت کے نشیب و فراز سے اچھی طرح واقف تھے، انہوں نے مجھے اپنا چشم دید واقعہ سنایا کہ میں ایک دن ایک تبکدہ میں گیا وہاں میری ایک جوگی سے ملاقات ہوئی وہ بڑی نرمی اور مہربانی سے مجھ سے ملے جو میری سرکار کے احوال بھی جانتے تھے، وہ مجھے ایک مقام پر لے گئے جہاں میں نے ایک آدمی دیکھا جو عاجزی و انکساری کرنے والوں کی طرح کھڑا ہے اور مشہود کو دیکھنے کے لیے آمادہ ہے میں اس کی ہیئت دیکھ کر خوفزدہ ہوا اور اپنے ساتھی جوگی سے پوچھا کہ یہ ماجرا کیا ہے، اس نے کہا کہ ہر شخص بارہ برس سے اسی طرح مشاہدہ جلال کے انتظار میں کھڑا ہے اور اپنی دعاؤں کی قبولیت کا انتظار کر رہا ہے، اس جوگی نے کہا کہ کبھی کبھی صبح سویرے اس کے اسم ’’ھو‘‘ کہنے کی آواز مجھے سنائی دیتی ہے، جب یہ اسم ’’ھو‘‘ کہتا ہے تو اس کے منہ سے ایک نور کا شعلہ نکلتا اور آفتاب کی مانند اونچا ہوجاتا ہے، اس نے مزید بتایا کہ

ہر قدم پہ ہر وقت یہ حیران و پریشان رہتا ہے، جب محبوب بے نشان کے مشاہدہ میں مستغرق ہوتا ہے تو محبوب کی ذات اور ہویت اس کی امانیت اور خودی کو مضمحل کردیتی ہوگی اور وہ اپنی تسبیحات کی وجہ سے اس انانیت کو ختم کردیتا ہوگا، اور یہ طالب حق اگر مقام استغراق سے طلب ہلاکت کے مقام تک پہنچ جائے تو محبوب میں گم ہوکر بے نشان اور فنا ہوجائے اس کے بعد تمام تر بھید اور اسرار اس پر کھل جائیں، جس طرح بحر عشق کی موجوں کا ایک قطرہ موجوں پر اشارے نہیں کرسکتا اسی طرح اندر کے اسرار کو الفاظ کے لباس میں بیان نہیں کیا جاسکتا۔ یہ منظر مشاہدہ جلال اگر مقام استہلاک سے مقام فنا میں گر پڑے تو دو عالم کی سلطنت لازماً اس کے قبضہ میں ہوگی۔

بندہ جائے رسد کے محو شود
بعد ازاں کا رجز خدائی نیست

ترجمہ: (بندہ اس مقام پر پہنچ کر محو ہوجاتا ہے، جہاں تمام کام ختم ہوجاتے ہیں اور خدا تعالیٰ کی ذات کے علاوہ اور کچھ باقی نہیں رہتا) اس واقعہ سے معلوم ہوا کہ اس مقام میں طلب گاروں سے جو سُنا جائے وہ ’’انا‘‘ ہی ہوگا اور ہم اولاً بتاچکے ہیں کہ جو کوئی از خود اس کی طرف اشارہ کرکے ’’ھو‘‘ کہے اس سے وہ خود ہی کی طرف اشارہ کرتا اور کہتا ہے۔

آں عزیزے کہ راز مطلق گفت
راست جنبید کو انا الحق گفت

ترجمہ: جو اناالحق کہنے کے لائق ہے اسی کے لیے راز مطلق کو بیان کرنا بھی مناسب ہے) بعض شیوخ کا بیان ہے کہ من عرف کے معنی یہ ہیں کہ اسم ذات ’’ھو‘‘ کے علاوہ تمام اسموں کو بھول جانا ہے، مطلب یہ کہ جو کوئی اللہ تعالیٰ کے معنی فردیت سے آگاہ ہونا چاہتا ہے تو وہ عالم وحدت پر ایک نظر ڈالے، اور کثرت و اضافت سے پرہیز کرتے، اور یگانگت کے دامن کو مضبوطی سے پکڑ لے اور جب ایک کو ایک دیکھ لے تو وحدت کے شامیانہ پر اس طرح حاضری دے کہ لاشعوری کا حامل ہوجائے، پھر فرد وحدت میں غوطہ زن ہوجائے، اس وقت طالب کو خدا کے نام کے علاوہ کسی دوسرے نام کی یاد داشت کی کیسے سکت و طاقت رہ سکتی ہے!

اے دوست! اس کو جو کوئی پہچانتا ہے، ہمیشہ بے چون و چرا پہچانتا ہے اور بیچوں کی طرف اشارہ کرنا محال ہے، اور بیچوں سے مراد گمراہی ہے اور یہ ایک بڑا راز ہے لا الٰہ الا اللہ اور قاعدہ یہ ہے کہ جس سے محبت ہوتی ہے اس کا تذکرہ بھی کثرت سے ہوتا ہے، لیکن ابتدائے عشق میں جب اس کے گلی کوچہ کا ذکر ہو تو ذرا صبر کرو، اور اگر عالم و فاضل بن کر اس تک رسائی کرنا چاہو گے، تو قاعدہ یہ ہے کہ جس کا کثرت سے ذکر کیا جاتا ہے وہ ہمیشہ دور نہیں رہتا، اس لیے اپنا جمال ضروری دکھائے گا، اور بیچارہ عاشق اپنے دردِ دل کے ساتھ ہمیشہ یہی کہتا رہتا ہے۔

گر عاقلے حدیث تو کم کنمے!
راہ سر گفتگوئے محکم کنمے
پس سوختہ چند فراہم کنمے
برگفتہ بگریمے و ماتم کنمے

 

ترجمہ: (اگر میں کچھ عقل رکھتا تو آپ کا تذکرہ کم کرتا، کاش اسرارِ خداوندی کی میں نے پختہ گفتگو کی ہوتی کچھ دل جلے لوگوں کو جمع کرلیتا، کاش میں نے اپنے کہے پر گریہ و زاری اور ماتم کیا ہوتا)

واہ! اللہ کی ذات پر نظر ڈالنے سے ہر ایک یہ کہنے پر مجبور ہوجاتا ہے کہ جس طرح تو نے اپنی تعریف فرمائی ہے میں اتنی تیری تعریف کرنے پر قدرت نہیں رکھتا، یہ بھی ایک راز ہے، خدا کی قسم، اگر ابتداً یہ معنی جس کا اظہار کشف کی انتہا میں بھی آدمی کو تھکا کر مُردہ کردیتا ہے اس کا اگر ظہور ہونے لگے تو روزانہ ایک سو بار استغفار پڑھنا چاہیے، اور میں خود بھی سو مرتبہ ہی عمل کرتا ہوں، ننانوے بار تو ننانوے ناموں کے لیے اور ایک بار استغفارکے لیے اے عزیز! جو مقام تعریف میں چلنے کی طاقت نہیں رکھتا اس کو مقام توحید پر ہی اکتفاء کرکے رک جانا چاہیے تاکہ وہ یہ کہہ سکے کہ اے اللہ میں تیری تعریفیں پوری طرح بیان نہیں کرسکتا لا الٰہ الا اللہ شعرا جب مناجات الحبیب باوجہ ولکن لسان العاشقین کلیل

 

ترجمہ: (میں حبیب کی مختلف طریقوں پر تعریف کرنا محبوب رکھتا ہوں، لیکن عاشقوں کی زبان بند ہے۔

اخبار الاخیار

Post a Comment

Previous Post Next Post