کوئی دوسرا شخص خاتم النبیین نہیں ہوسکتا koi Dosra Shakhsh Khatim un nabeen Nahi Ho sakta

کوئی دوسرا شخص خاتم النبیین نہیں ہوسکتا  

اس تقریر سے یہ بات بھی معلوم ہوئی کہ دوسرا شخص خاتم النبیین ہونا محال ہے ۔ پھر بعض لوگ جو کہتے ہیںکہ اگرچہ دوسرا خاتم النبیین ہونا محال و ممتنع ہے مگر یہ امتناع لغیرہ ہوگا نہ بالذات جس سے امکان ذاتی کی نفی نہیں ہوسکتی ، کیونکہ امکان ذاتی اور امتناع لغیرہ میںکچھ منافات نہیں ۔ سو اس کا جواب یہ ہے کہ وصف خاتم النبیین خاصہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کا ہے جو دوسرے پر صادق نہیں آسکتا ۔ اور موضوع لہ اس لقب کا ذات آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم ہے ، کہ عند الاطلاق کوئی 
دوسرا اس مفہوم میں شریک نہیں ہوسکتا ۔ پس یہ مفہوم جزئی حقیقی ہے ۔ اور کلیت مفہومی جو وضع سے قطع نظر کرنے میں معلوم ہوتی ہے بسبب وضع کے جاتی رہی ۔ جیسا کہ عبداللہ جب کسی شخص کے لئے وضع کیا جاتا ہے جزئی حقیقی ہوجاتا ہے ۔
 اور مفہوم کلی اس لفظ کا اس کی جزئیت میںکچھ فرق نہیں لاتا ۔ بلکہ اگر غور کیا جائے تو معلوم ہو کہ یہ مثال بھی پورے طور پر یہاں تائید نہیں دیتی ۔ اس لئے کہ عبداللہ عین وقت وضع میں برابر دوسروں پر کہا جاتا ہے ۔ بخلاف لفظ خاتم النبیین کے جب سے واضع نے اس کو وضع کیا ہے کبھی دوسرے پر اس کا اطلاق کیا ہی نہیں اور نہ اطلاق اس کا سوائے ایک ذات کے دوسرے پر صحیح ہوسکتا ہے ۔
اس لئے کہ ختم انتہا کوکہتے ہیں اور ظاہر ہے کہ انتہاء متجری نہیںہوسکتی تاکہ دو شخص اس صفت کے ساتھ متصف ہوں ۔ پھر جب عقل نے بہ تبعیت نقل ایک ذات کے اتصاف کو مان لیا اس کے نزدیک محال ہوگیا کہ دوسری ذات اس صفت کے ساتھ متصف ہوسکے ۔ اور بحسب منطوق لازم الوثوق قولہ تعالیٰ ما یبدل القول لدی کے جب ابدالآباد یہ لقب مختص آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم ہی کے لئے ٹھہرا ، تو جزئیت اس مفہوم کی ابدالآباد کے لئے ہوگئی ۔ کیونکہ یہ لقب قرآن شریف سے ثابت ہے جو بلا شک قدیم ہے الحاصل اس مفہوم کی جزئیت میںکوئی شک نہیں ، اور یہ بات عبداللہ میں نہیں ۔ 
اب اس دعویٰ کا قضیہ بنائے کہ ( غیرہ علیہ السلام خاتم النبیین بالامکان ) بادنیٰ تامل ثابت ہوجائے گا کہ یہ قضیہ بحمل صحیح منعقد ہی نہیں ہوسکتا ۔ اس لئے کہ حمل جزئی حقیقی کا کلی پر صحیح نہیں ۔ اور اگر بنظر اہمال موضوع کے جزئی سمجھا جائے پھر خواہ وہ معین ہو خواہ غیر معین غیر موضوع لہ محمول کا ہوگا ۔ اور ابھی معلوم ہوا کہ محمول جزئی حقیقی ہوتو اس کا حمل دوسری جزئی پر ہرگز نہیں ہوسکتا ۔ جیسا (زید عمرو ) درست نہیں ۔ اور حمل مذکور کے عدم جواز کی دوسری وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ خاصہ کا حمل غیر ذی الخاصہ پر درست نہیں ۔ جیسے (الحمار کاتب ) یا ( غیر آدم علیہ السلام ابوالبشر ) یا (زیدابوزید ) یعنے زید اپنا آپ باپ ہے مثال آخری ممثل لہ پر اس وجہ سے منطبق ہے کہ عمرو مثلاً زید کا باپ ہے تو یہ 
صفت اس کا خاصہ ہوگی ۔ پھر یہ صفت اگر غیر عمرو پر اطلاق کی جائے تو اس امر میں کہ موضوع غیر ذی الخاصہ ہے زید اور بکر دونوں برابر ہوں گے پس اطلاق ابوزید خاصہ کا اگر بکر پر صحیح ہوتو چاہئے کہ اس کی جہت سے زید پر بھی صحیح ہو کیونکہ غیر ذی الخاصہ ہونے میں دونوں برابر ہیں واللازم باطل فالملزوم مثلہ ۔ اور قطع نظر اس کے یہ تو ظاہر ہے کہ زید کا پدر حقیقی جب عمرو ہوتو یہ صفت دوسرے پر کیوں کر صادق آسکے ۔
الحاصل خاصہ ایک شئے کا دوسرے پر صادق نہیں آسکتا ۔ ورنہ وہ خاصہ خاصہ نہ ہوگا ۔ وھو خلف ۔ لم اس کا یہ ہے کہ محمول کو چاہئے کہ ذاتی موضوع کا ہو یا عرضی ۔ اور حمل وہی صادق آتا ہے جہاں مبدا محمول کا ذاتی موضوع کا ہو ۔جیسے (الانسان ناطق ) یا صفت منضمہ ہو جیسے ( زید کاتب ) یا منتزعہ ہو خواہ بالاضافت جیسے السماء فوقنا یا بلااضافت جیسے الاربعۃ زوج پھر جب مبدأ محمول کا خاصہ کسی دوسری چیز کا ہوتو غیر ذی الخاصہ کی نہ ذاتی ہوسکے گا نہ وصف منضمہ نہ منتزعہ ۔ اس سبب سے خاصہ کا حمل غیر ذی الخاصہ پر صحیح نہیں ۔ پس معلوم ہوا کہ خاتم النبیین کا حمل غیر آنحضرت ﷺ پر صحیح نہیں۔ اور یہ تو ظاہر ہے کہ نسبت حکمیہ وقت حمل پیدا ہوتی ہے ۔ پھر حمل ہی نہیں تو نسبت حکمیہ کہاں ۔ اور جب نسبت ہی کا پتا نہ ہوتو جہت امکان کیوں کر ثابت ہوسکے ۔ اس لئے کہ جہت تو نسبت کی کیفیت کا نام ہے تو ضرور ہواکہ ثبوت کیفیت کے پہلے ثبوت نسبت ہو کیوں کہ ثبوت الشییٔ للشییٔ فرع ثبوت مثبت لہ ہے ۔ یا یوں کہئے کہ ثبت العرش ثم النقش الحاصل اس سے معلوم ہوا کہ قضیہ مذکورہ غلط ہے ۔ اور سنئے محمول قضیہ کا جو جزئی حقیقی ہے اگر دوسری چیز پر حمل کیاجائے تو سلب الشییٔ عن نفسہ لازم آئے گا ۔ دیکھو اس حمل کی نظیر بعینہ ( زید عمرو ) ہے سو جب تک زید سے زیدیت یا عمرو سے عمرویت مسلوب نہ ہو عمرویت زید میں قائم نہیں ہوسکتی ۔ اورظاہر ہے کہ سلب الشییٔ عن نفسہ محال ہے ۔ پھر یہ محال جو لازم آرہا ہے وقت حمل ہے یعنی ہنوز نسبت ہی کا وجود نہیں ہوا کہ محال لازم آگیا تابہ امکان چہ رسد ۔ اور علی سبیل التنزل اگر مساوق بھی
ہوتب بھی امکان کو محل نہ ملا ۔ اس تقریر سے بھی یہی ثابت ہے کہ وہ قضیہ باطل ہے ۔ کیونکہ مستلزم محال محال ہوا کرتا ہے ۔ اب اگر کہا جائے کہ یہ بھی منجملہ وجوہ امتناع لغیرہ ہے ، سو اس کا جواب یہ ہے کہ تقریر بالا سے امکان ذاتی کا وجود باطل ہوگیا اگر اس بطلان کو بھی منجملہ وجوہ امتناع لغیرہ کے تصور کرلیں تو امتناع کا پلہ خوب ہی بھاری ہوجائے گا جس میں بطلان ذاتی یعنے امتناع ذاتی بھی شریک ہوگا ۔ سو وہ دعویٰ امکان ذاتی کا کہاں رہا ۔ اور اس دعویٰ کا ابطال اس تقریر سے بھی ہوسکتا ہے کہ مفہوم خاتم النبیین کااگرچہ کلی ہے مگر کلیت اس کی ایسی نہیں جیسے انسان وغیرہ کی ہے اس لئے کہ انسان کے افراد کثیرہ ہونے میں کوئی قباحت لازم نہیں آتی بلکہ موجود ہیں ، بخلاف خاتم النبیین کے کہ اس کے معنی میں کثرت صادق آہی نہیں سکتی جیسے مرکز یا اول یا آخر یا مبدا ۔ حال مرکز کا سنئے کہ مرکز اس نقطہ کو کہتے ہیں کہ جتنے خطوط اس سے نکل کر محیط تک پہنچیں سب آپس میں برابر ہوں ۔ وہ خطوط نصف قطر دائرہ ہوں گے جن کے ملتقی کا نام مرکز ہے ۔
 پھر اگر ان خطوط کی ابتداء محیط دائرہ سے لی جائے تو مرکز منتہیٰ ان خطوط کا ہوگا اور اگر مرکز سے لی جائے تو وہ مبدا ان کا ہوگا ۔ بہرحال خواہ وہ مبدا ہویا منتہیٰ مرکز ایک نقطہ معین ہوگا جس کافرض کرنا ہر جگہ مثل اور نقطوں کے ممکن نہیں ۔ اور اسی نقطہ میں یہ صفت قائم ہوگی کہ مبدا یا منتہیٰ ان تمام خطوط کا ہے جو نصف قطر دائرہ ہوسکیں ۔ اب اگر سوائے اس نقطہ معینہ کے دوسرا نقطہ فرض کریں اور کہیں کہ ممکن ہے کہ وہ بھی مرکز اس دائرہ کا ہوتو یہ فرض محال ہوگا اس لئے کہ وہ صفت مختصہ ( یعنے منتہیٰ ان خطوط کا ہونا ) دوسرے میں قائم نہیں ہوسکتی کیونکہ وہ دوسرا نقطہ اس دائرہ میں جس جگہ فرض کیا جاوے اصلی مرکز سے ہٹ کر ایک نصف قطر پر ہوگا تو جملہ خطوط مذکورہ کا مبدا یا منتہیٰ ہونا تو درکنار خود اس خط کا مبدا یا منتہیٰ نہیں ہوسکتا جس پر وہ واقع ہے اس لئے کہ آخر وہ خط بھی نصف قطرہے اور ہر نصف قطر کا مبدا مرکز حقیقی ہونا لازم ہے ورنہ خط نصف قطر نہ ہوگا الحاصل مصداق مرکز کا اگر دوسرا فرض کیا جائے تو انسلاخ الشیٔ عن لوازمہ بل عن ذاتہ لازم آجائے گا اور یہ محال لذاتہ ہے ۔ اب اس دائرہ کے کسی نقطہ
میں صلاحیت اور امکان نہیں کہ مرکز اور منتہیٰ ان خطوط کا بن سکے ۔ یہاں تک کہ اگر خود واضع اس دائرہ کا چاہے کہ کسی دوسرے نقطہ کو اس دائرہ کا مرکز قرار دے تو نہیں ہوسکتا کیونکہ کسی میں صلاحیت ہی نہیں ، ہاں وقت دائرہ کھینچنے کے ممکن تھا کہ جس نقطہ کو چاہتا مرکز بنادیتا لیکن جب اس نقطہ کو معین کرچکا تو سب نقاط موجودہ و غیر موجودہ کو اس دائرہ کے مایوسی کلی حاصل ہوگئے کہ اب کوئی مرکز نہیں ہوسکتا ۔ حالانکہ مرکز کوئی شئے موجود فی الخارج نہیں وجود اس کا صرف علم میں ہے کیونکہ مرکز بھی ایک نقطہ ہے اور ماہیت نقطہ کی یہی ہے کہ طرف خط ہو اور ظاہر ہے کہ خود خط بالفعل موجود نہیں ورنہ ترکب سطح کا خطوط سے لازم آئے گا جو باطل ہے ۔ پھر جب خط ہی کا وجود نہیں تو مرکز جو طرف اس کا ہے کہاں ۔ مگر باوجود اس کے مرکز ایک معین شئے ہے اس لئے اس دائرہ یا کرہ پر اطلاق دائرہ کا جب ہی ہوگا کہ نسبت محیط کی مرکز کے ساتھ ہر جہت میں برابر ہو اور اگر مرکز ہی نہ ہو جو احد المنتسبین ہے تو نسبت کیسی ۔
 پھر جب سے کہ مرکز معین ہوا وہ صفت مختصہ اس کی یعنے ( منتہیٰ جمیع خطوط مذکورہ کا ہونا ) بھی اس پر صادق آرہی ہے ۔ ہر چند یہ صفت بھی کلی ہے ، مگر کلیت اس کی بھی مثل کلیت مرکز کے ہے کہ قبل تعین مصداق کے علی سبیل البدلیت مصادیق اس کے بہت سے ہوسکتے ہیں اور جب مصداق معین ہوگیا اب احتمال کثرت کا جاتا رہا ۔ پس یہ صفت اگرچہ کہ علم مرکز کا نہیں مگر اختصاص میں اس درجہ کو پہنچی ہوئی ہے کہ عندالاطلاق سوائے اس مرکز کے جو جزئی حقیقی ہے دوسرے کے طرف ذہن منتقل ہوہی نہیں سکتا اسی طرح خاتم النبیین کا مفہوم کہ عندالاطلاق سوائے اس ایک ذات خاص کے دوسرا کوئی متباور نہیں ہوتا ۔ پس معلوم ہوا کہ بعد تعین مصداق کے مرکز اور مبدا اور منتہیٰ میں کثرت نہیں آسکتی ۔ اسی طرح اول و آخر سلسلہ کا مبدا اور منتہیٰ ہوگا وہاں بھی اس قسم کی تقریر جاری ہوگی ۔ چونکہ خاتم النبیین کے معنی بھی منتہائے نبیین ہے اس سبب سے یہ بھی اس قسم کی کلی ہوگی کہ بعد تعین مصداق کے جزئی حقیقی ہوجائے اور سوائے ایک ذات کے دوسرے پر صادق نہ آسکے ،ہاں کلیت اس کی قبل تعین مصداق متحقق ہے کہ علی سبیل البدلیت بہت 
افراد پر صادق آسکتی تھی جیسے مرکز مثال مذکورہ میں ۔ اب یہ دیکھا جائے کہ مصداق اس کا کب سے معین ہوا سو ہمارا دعویٰ یہ ہے کہ ابتدائے عالم امکان سے جس قسم کا وجود فرض کیا جائے ہر وقت آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم اس صفت مختصہ کے ساتھ متصف ہیں کیونکہ حق تعالیٰ اپنے کلام قدیم میں آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کو خاتم النبیین فرماچکا ہے۔ 
اب کونسا ایسازمانہ نکل سکے گا کہ صفت علم و کلام باری تعالیٰ پر مقدم ہو ۔ پھر تعین ذات خاصہ اور اتصاف اس صفت مختصہ کے لئے وجود خارجی شرط نہیں جیسے مرکز میں ابھی معلوم ہوا ۔ اور قطع نظر اس کے خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمادیا ہے اور جس کو حاکم نے مستدرک میں روایت کیا ہے : کنت نبیا و آدم بین الماء والطین یعنی ہنوز آدم علیہ السلام پانی اور کیچڑ میں تھے اور میں نبیؐ تھا ۔ اب ہم یقیناً کہہ سکتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم ازل سے متصف اس صفت خاصہ کے ساتھ ہیں ۔ اور جو جو تقلبات آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے ہر عالم میں ہوئے ہیں اس کو ہم ایسے سمجھتے ہیں جیسے لڑکپن جوانی وغیرہ کہ ذات ہر وقت میں محفوظ ہے حق تعالیٰ فرماتا ہے {وتقلبک فی السٰجدین } امام سیوطیؒ نے مسالک الحنفاء میں نقل کیا ہے : وقدقال ابن عباسؓ فی تاویل قول اللہ { و تقلبک فی السٰجدین} ای تقلبک من اصلاب طاہرۃ من اب بعد اب الی ان جعلک نبیا ۔  اسی مضمون کو حافظ شمس الدین بن ناصر الدین دمشقی نے نظم میں لکھا ہے :
تنقل احمد نور عظیم
تلألأ فی جبین الساجدینا 
تقلب فیھم قرنا فقرنا
الی ان جاء خیر المرسلینا  
ذکرہ الامام السیوطیؒ فی مسالک الحنفاء اور حافظ العصر ابن حجر عسقلانی نے کہا ہے : 
نبی الہدی المختار من آل ہاشم
فعن فخرھم فلیقصر المتطاول 
تنقل فی اصلاب قوم تشرفوا
بہ مثل ما للبدر تلک المنازل 
 ذکرہ السیوطیؒ فی المقامۃ السندسیۃ ۔ اس سے بھی معلوم ہوا کہ عالم شہادت کے پہلے بھی ذات آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی محفوظ تھی کیونکہ تقلب صفت ہے اور تمام اور قیام صفت کا بغیر ذات موصوف کے محال ہے اس عالم میں تشریف فرما ہونے کے پیشتر آدم علیہ السلام سے پہلے بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم موجود تھے جو کنت نبیاً اور أوّل ما خلق اللہ نوری سے معلوم ہوا اور بعد آدم علیہ السلام کے بھی جو { وتقلبک فی السٰجدین } سے معلوم ہوا ۔ الحاصل وجود جزئی حضرتؐ کا ثابت ہے اگرچہ اطوار وجود مختلف ہوں اور حالت جزئیت میں اتصاف اس صفت کے ساتھ بھی موجود رہا پھر خاتم النبیین کے جزئی حقیقی ہونے میں کیا کلام ، اگر کہا جاوے کہ اس تقریر سے خاتم النبیین مثل دوسرے اعلام کے ایک علم ہوجائے گا تو اس میں فضیلت ہی کیا ہوئی؟ اس کا جواب یہ ہے کہ پہلے علم کی حقیقت معلوم کرلیجئے کہ ہر جماعت انسان اپنے مافی الضمیر ظاہر کرنے میں محتاج اس امر کی ہے کہ ہر چیز کے مقابلہ میں ایک لفظ مقرر کرے تاکہ جو شخص اس وضع سے واقف ہو وہ لفظ سنتے ہی سمجھ جائے کہ مقصود متکلم کا یہ ہے اب اس وضع کے وقت یہ ضروری نہیں کہ اس لفظ میں کوئی معنے وصفی ہوں بلکہ حروف تہجی سے چند حروف لے کر جو لفظ ترکیب دیدیا جائے وہی علم ہوجائے گا اور اگر کوئی لفظ معنی دار علم ہوتو معنے سابق اس میں نہیں ہوتے اس سے معلوم ہواکہ تقرر علم کا صرف اسی واسطے ہے کہ اس کے کہنے سے ذات معینہ معلوم ہوجائے بخلاف صفت کے کہ سوائے ذات کے ایک دوسرے معنی پر بھی اس سے دلالت ہوتی ہے
مثلاً عالم کہ اس سے ذات مع صفت علم سمجھی جاتی ہے اور صفت کا مبدا اس ذات میں موجود ہوگا ۔ اور علم میں یہ بات نہیں اب 
دیکھئے کہ صفت ختم نبوت کی آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی ذات مبارک میں ازل سے قائم ہے جیسے ابھی مذکور ہوا مگر صفت مختصہ ہونے کی وجہ سے انحصار اس صفت کا ذات مبارک میںہے اس انحصار سے یہ لازم نہیں آتا کہ لفظ خاتم النبیین علم ہوجائے کیونکہ یہ لفظ ذات مع الصفت پر دلالت کرتا ہے نہ صرف ذات پر ۔ الحاصل صفت خاتمیت آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے لئے ازلاً و ابداً مسلم ہوگئی اب کسی دوسرے کا اتصاف اس صفت مختصہ کے ساتھ محال ہے جیسے کہ سوائے نقطۂ مخصوصہ کے متصف بصفت مرکزیت ہونا کسی دوسرے نقطہ کا دائرہ خاص میں محال ہے ۔ اب ہم ذرا اُن صاحبوں سے پوچھتے ہیں کہ اب وہ خیالات کہاں ہیں جو کل بدعۃ ضلالۃ پڑھ پڑھ کے ایک عالم کو دوزخ میں لے جارہے تھے ۔ کیا اس قسم کی بحث فلسفی بھی کہیں قرآن و حدیث میں وارد ہے ۔ یا قرون ثلاثہ میں کسی نے کی تھی پھر ایسی بدعت قبیحہ کے مرتکب ہوکر بحسب واقع کیا استحقاق پیدا کیا ۔ اور اس مسئلہ میں جب تک بحث ہوتی رہے گی اُس کا گناہ کس کی گردن پر ۔ دیکھئے حدیث شریف میں وارد ہے : 
فی المشکوۃ  و عن جریرؓ قال قال رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ و سلم : من سن فی الإسلام سنۃً سیئۃً کان علیہ وزرہا و وزرمن عمل بہا من بعدہ من غیر ان ینقص من اوزارہم شیٔ ۔ الحدیث رواہ مسلم
یعنے فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے جو شخص اسلام میں بُرا طریقہ نکالے تو علاوہ اُس جرم ارتکاب کے جتنے لوگ اس کے بعد اس پر عمل کرتے رہیں سب کا گناہ اُس کے ذمہ ہوگا اور اُن کے گناہ میں کچھ کمی نہ ہوگی ۔ روایت کیا اس کو مسلم نے ۔انتہیٰ ۔ 
بھلا جس طرح حق تعالیٰ کے نزدیک صرف آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم خاتم النبیین ہیں ،ویسا ہی اگر آپ کے نزدیک بھی رہتے تو اس میں کیا نقصان تھا۔ کیا اس میں بھی کوئی شرک و بدعت رکھی تھی جو شاخ شانے نکالے گئے ۔ یہ تو بتلایئے کہ ہمارے حضرتؐ نے آپ کے حق میں ایسی کونسی 
بدسلوکی کی تھی جو اُس کا بدلہ ایسے طور پر کیا جارہا ہے کہ فضیلت خاصہ کا مسلم ہونا مطلقاً ناگوار ہے ۔ یہاں تک کہ جب دیکھاکہ خود حق تعالیٰ فرمارہا ہے کہ آپ سب نبیوں کے خاتم ہیں ۔ کمال تشویش ہوئی کہ ہائے فضیلت مختصہ ثابت ہوئی جاتی ہے جب اس کے ابطال کاکوئی ذریعہ دین اسلام میں نہ ملا فلاسفہ معاندین کی طرف رجوع کیا اور امکان ذاتی کی شمشیر دودُم اُن سے لے کر میدان میں آکھڑے ہوئے ۔ افسوس ہے اس دُھن میں یہ بھی نہ سونچا کہ معتقدین سادہ کو انتظار اس خاتم فرضی کا کس قدر کنویں جھکائے گا ۔ مقلدین سادہ کے دلوں پر اس تقریر معقولی کا اتنا تو ضرور اثر ہوا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی خاتمیت میں کسی قدر شک پڑگیا گو دقائق معقولی کو نہ سمجھے ہوں ۔ چنانچہ بعض اتباع نے اسی بناء پر الف و لام خاتم النبیین سے یہ بات بنائی کہ حضرتؐ ان نبیوں کے خاتم ہیں جو گزر چکے ۔ جس کا مطلب یہ ہوا کہ آئندہ جو انبیاء پیدا ہوں گے ان کا خاتم کوئی اور ہوگا۔ معاذ اللہ اس تقریرنے کہاں تک پہنچا دیا کہ قرآن کا انکار ہونے لگا ۔ 
ذرا سونچئے تو کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے روبرو خاتم النبیین ہونے میں یہ احتمالات نکالے جاتے تو کس قدر حضرتؐ پر شاق ہوتا ۔ عمر رضی اللہ عنہ نے صرف توراۃ کے مطالعہ کا ارادہ کیا تھا اس پر آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی حالت کیسی متغیر ہوگئی کہ چہرۂ مبارک سے آثار غضب پیدا تھے ۔ اور باوجود اس خلق عظیم کے ایسے صحابیؓ جلیل القدر پر کیسا عتاب فرمایا کہ جس کا بیان نہیں ۔ جو لوگ مذاق تقرب و اخلاص سے واقف ہیں اس کو سمجھ سکتے ہیں ۔ پھر یہ فرمایا کہ اگر خود موسیٰؑ میری نبوت کا زمانہ پاتے تو سوائے میری اتباع کے ان سے کچھ نہ بن پڑتی ۔ دیکھ لیجئے وہ روایت مشکوۃ شریف میں ہے :
عن جابرؓان عمرؓ بن الخطاب اتی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم بنسخۃ من التوراۃ فقال : یا رسولؐ اللہ ہذہ نسخۃ من التوارۃ ، فسکت فجعل یقرأ ووجہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم یتغیر ، فقال ابوبکرؓ : ثکلتک الثوا کل ماتری مابوجہ رسول اللہ 
صلی اللہ علیہ و سلم ؟ فنظر عمر الی وجہ رسول اللہ علیہ و سلم فقال: اعوذباللہ من غضب اللہ و غضب رسولہ ، رضیناباللہ رباً و بالاسلام دینا و بمحمد نبیا ، فقال رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم : والذی نفس محمدؐ بیدہ لوبدا لکم موسی فاتبعتموہ و ترکتمونی لضللتم عن سواء السبیل ، ولوکان موسیؑ حیا و ادرک نبوتی لاتبعنی ۔ رواہ الدارمی 
یعنے روایت ہے جابرؓ سے کہ ایک بار عمرؓ نے تورات کا نسخہ لاکر عرض کی یا رسولؐ اللہ یہ تورات کا نسخہ ہے حضرتؐ خاموش ہوگئے وہ لگے پڑھنے ادھر چہرۂ مبارک متغیر ہونے لگا ، ابوبکرؓ نے یہ دیکھ کر کہا اے عمرؓ تم تباہ ہوگئے کیا چہرۂ مبارک کو نہیں دیکھتے ۔ عمرؓ یہ دیکھتے ہی کہنے لگے میں پناہ مانگتا ہوں خدا اور رسولؐ کے غضب سے ہم راضی ہیں اپنے پروردگار اور دین اسلام اور اپنے نبی محمد صلی اللہ علیہ و سلم سے ، فرمایا حضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے : قسم ہے اللہ کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے اگر موسیٰؑ تم میں ظاہر ہوتے اور تم لوگ مجھے چھوڑ کر ان کی پیروی کرتے تو ضرور گمراہ ہوجاتے اگر موسیٰؑ اس وقت زندہ ہوتے اور میری نبوت کے زمانہ کو پاتے تو میری ہی اطاعت کرتے ۔ 
اور روایت احمد و بیہقی میں وماوسعہ الااتباعیہے ، یعنی سوائے میری اتباع کے ان سے کچھ بن نہ پڑتی ۔ 
اب ہر شخص سمجھ سکتا ہے کہ جب عمر رضی اللہ عنہ کے سے صحابی بااخلاص کی صرف اتنی حرکت اس قدر ناگوار طبع غیور ہوئی تو کسی زیدو عمرو کی اس تقریر سے جو خود خاتمیت میں شک ڈالدیتی ہے ، کیسی اذیت پہنچتی ہوگی ۔ کیا یہ ایذا رسانی خالی جائے گی ، ہرگز نہیں ،حق تعالیٰ فرماتا ہے : { ان الذین یؤذون اﷲ و رسولہ لعنھم اﷲ فی الدنیا و الاٰخرۃ واعدلھم عذابا مھیناً}
ترجمہ : جو لوگ ایذا دیتے ہیں اللہ کو اور اللہ کے رسولؐ کو لعنت کرے گا ان کو اللہ دنیا اور آخرت میں اور مہیا کر رکھا ہے ان کے واسطے ذلت کا عذاب ۔ انتہیٰ ۔ نسأل اللہ تعالیٰ توفیق الأدب وھوولی التوفیق ۔
(۶)
ہے درود پاک بھی ذکر شہ عالی مقام 
ہر طرح سے جس کا خالق کو ہے منظور اہتمام
بھیجتا ہے خود درود اس فخرعالم پر مدام 
اور فرشتے دائماً مشغول ہیں جس میں تمام 
کیسی طاعت ہوگی وہ جس میں ہو خود حق بھی شریک 
ہے جو طاعت سے بری جس کا نہیں کوئی شریک 

Post a Comment

Previous Post Next Post