Biography Hazrat Sheikh Bahauddin تعارف حضرت شیخ بہاء الدین شطاری قادری جنیدی دولت آبادی

 حضرت شیخ بہاء الدین شطاری رضی اللّٰه عنہ

📚 « مختصــر ســوانح حیــات » 📚

-----------------------------------------------------------

🕯️حضرت شیخ بہاء الدین شطاری رضی اللّٰه عنہ🕯️

➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖



نام و نسب:

اسمِ گرامی: حضرت شیخ بہاء الدین۔

لقب: شطاری، جنیدی۔

سلسلۂِ نسب اس طرح ہے:

حضرت شیخ بہاء الدین شطاری قادری جنیدی بن شیخ ابراہیم بن شیخ عطاء اللہ انصاری رضی اللّٰه عنہما۔

آپ کا تعلق قصبہ ’’جنید‘‘ سے تھا۔ جو مضافاتِ سرہند میں واقع ہے۔ اسی کی نسبت سے آپ ’’جنیدی‘‘ کہلاتے ہیں۔


تاریخِ ولادت: کُتبِ سیّر آپ کی تاریخِ ولادت کےبارے میں خاموش ہیں۔ تقریباً آپ کی ولادت باسعادت نویں صدی ہجری کے وسط میں ہوئی ہوگی۔آپ کی جائےولادت قصبہ جنید مضافاتِ سرہند (ہند) ہے۔


تحصیلِ علم: آپ نے اپنے علاقے میں ہی محنت و شوق سے مکمل علوم ِ دینیہ کی تحصیل و تکمیل فرمائی۔ آپ کو علوم ِ عربیہ، فقہ اور اصولِ فقہ میں مہارتِ تامہ حاصل تھی۔ آپ کا علمی مقام بہت بلند تھا۔ آپ کی ذات مرجعِ علماء و فقراء تھی۔ آپ صاحبِ تصانیف بزرگ تھے۔’’رسالۂِ شطاریہ‘‘ آپ کی مشہور تصنیف ہے۔ جس کا ذکر حضرت شیخ عبدالحق محدث دہلوی رحمۃ اللّٰه علیہ نے اپنی کتاب ’’اخبارالاخیار‘‘ میں فرمایا ہے۔

بیعت و خلافت: آپ سلسلہ عالیہ قادریہ میں نبیرۂ غوث الاعظم، حضرت سید شیخ احمد جیلانی رضی اللّٰه عنہ کے دستِ حق پرست پر بیعت ہوئے۔ آپ کے شیخِ طریقت نے خاص حرم شریف میں آپ کو بیعت کیا اور جملہ اوراد و وظائف کی اجازات دے کر خلافت سے بھی نوازا۔ سلسلہ قادریہ سے جو آپ کو نسبت حاصل تھی، آپ اس پر فخر کرتے تھے۔


سیرت و خصائص: قدوۃ السالکین، نور العارفین، منہاج العابدین فی الہند، رہبرِ علوم سنت، مظہرِ مذہبِ اہل سنت، حامی السنۃ والدین حضرت شیخ بہاء الدین رضی اللّٰه عنہ۔

آپ صاحبِ کمالات و کرامات تھے۔ سلسلہ عالیہ قادریہ رضویہ کے پچیسویں امام اور شیخِ طریقت ہیں۔ اسی طرح آپ ہندوستان میں سلسلۂِ عالیہ قادریہ رضویہ کے پہلے بزرگ ہیں- اسی لیے آپ کو ’’امام سلسلۂِ قادریہ فی الہند‘‘ کے مبارک خطاب سے یاد کیا جاتا ہے۔ آپ سلطان غیاث الدین بن محمد خلجی کے عہد میں بمقام مندو میں تشریف لائے، آپ کی ذات ِ اقدس سے سلسلۂِ عالیہ قادریہ کو ہندوستان میں عروج ملا۔ مخلوقِ خدا جوق درجوق آپ کےحلقۂِ درس میں شامل ہوئی، اور آپ کے فیضِ صحبت سےبےشمار خلق سلسلۂِ ارادت میں شامل برصغیر پاک و ہند کےکونے کونے میں پہنچ گئے۔یہی وجہ ہے کہ آج اس خطے میں سلسلۂِ عالیہ قادریہ سے لاکھوں لوگ وابستہ ہیں۔ ہر شہر میں سلسلۂِ قادریہ کی خانقاہیں موجود ہیں۔آپ صاحب ولایت ، جامع شریعت و طریقت تھے۔عبادت و ریاضت میں یگانہ اور راہ سلوک میں مرشد زمانہ تھے، ساتھ ساتھ صاحب تصنیف بھی تھے۔ آپ کی مبارک تصنیف رسالہ فی الاوراد والاشغال المعروف بہ ’’ رسالۂِ شطاریہ‘‘ صوفیاء اور ارباب طریقت کے درمیان مشہور و مقبول رہا ہے۔یہ رسالہ آپ نے اپنے مرید خاص اور احب الخلفاء حضرت سید شاہ ابراہیم ایرجی رحمۃ اللّٰه علیہ کے لیے تحریر فرمایا تھا۔ یہ رسالہ علوم و معرفت کا خزینہ ہے۔

تعلیماتِ مبارکہ: حضرت شیخ بہاء الدین رضی اللّٰه عنہ اپنے رسالۂ شطاریہ میں تحریر فرماتے ہیں: کہ خداوند قدوس تک رسائی کے طریقے مخلوق کے انفاس کے برابر ہیں یعنی بہت ہیں۔ ان سارے طریقوں میں تین طریقے زیادہ مشہور و معروف ہیں۔

پہلا طریقہ : اخیار کاہے اور وہ نماز، روزہ، تلاوتِ قرآن مجید، حج اور جہاد ہے۔ اس طریقے پر چلنے والے طویل سفر طے کرنے کے باوجود بہت کم ہی منزلِ مقصود تک پہنچتے ہیں۔

دوسرا طریقہ: اس میں اخلاقِ ذمیمہ کی تبدیلی، تزکیۂ نفس، تصفیہ دل اور جلائے روح کے لیے مجاہدات و ریاضت کیے جاتے ہیں۔اس راستے سے منزل مقصود تک پہنچنے والوں کی تعداد پہلے طریقہ کی بنسبت زیادہ ہے۔

تیسرا طریقہ: شطاریہ ہے۔ اس طریقہ پر چلنے والے ابتدا ہی میں ان منازل سے آگے نکل جاتے ہیں جن پر دوسرے طریقوں کی بنسبت زیادہ عمدہ اور تقرب الی اللہ کے اعتبار سے زیادہ قریب ہے۔

طریقۂِ شطاریہ کے دس اصول ہیں:

1توبہ: اللہ کے علاوہ ہر شے سے خروج کا نام توبہ ہے۔

2زہد: زہد نام ہے دنیا، اس کی محبت اس کے سامان اور اس کی خواہشات کو ترک کرنے کا۔

3 توکل: توکل اسباب ِدنیا سے کنارہ کشی کو کہتے ہیں۔

4قناعت: خواہشات ِنفسانیہ کے ترک کو قناعت کہتے ہیں۔

5عزلت: خلق سے میل جول کے ترک کو کہتے ہیں۔

6توجہ الی الحق: یہ ہر اس چیز کے چھوڑنے کا نام ہے جو غیرِ حق کی طرف داعی ہو۔ یہ وہ منزل ہے جہاں خداوند قدوس کے علاوہ کوئی مطلوب، محبوب اور مقصود باقی نہیں رہتا۔

7صبر: یہ انسان کا مجاہدہ کے ذریعے لذتوں کو چھوڑنا ہے۔

8رضا: اللہ کی رضا میں داخل ہو کر نفس کی رضا سے نکلنے کا نام ہے۔ اس طرح کہ احکام ازلیہ کو تسلیم کرے اور خود کو بغیر کسی اعراض کے مصلحت خدا وندی کے حوالے کر دے۔

9ذکر : یہ اللہ تعالیٰ کے ذکر کے علاوہ تمام مخلوق کے ذکر کا ترک ہے۔

10مراقبہ: یہ اپنے وجود اور قوت سے نکلنے کا نام ہے۔

مراقبہ کے متعلق شیخ فرماتے ہیں: کہ قرآن کریم کی وہ تمام آیات و کلمات جن سے توحید کا مفہوم سمجھا جاتا ہے یہ سب اسمائے مراقبہ ہیں، یعنی جب مراقبہ کرنے کااِرادہ ہوتو ان آیات و کلمات کو پڑھاجائے اور وہ کلمات یہ ہیں۔ وھو معکم اینما کنتم، اینما تولو فثم وجہ اللہ، الم یعلم بان اللہ یری، نحن اقرب الیہ من حبل الورید، ان اللہ بکلّ شی محیط، وفی انفسکم افلا تبصرون، ان معی ربی سیھدین، اسی طرح اللہ حاضری اللہ ناظری اللہ شاھدی اللہ معی اور ذات باری کا مراقبہ یاحیی یاقیوم کا مراقبہ انیس کا مراقبہ، تمام اسمائے حسنیٰ کا مراقبہ، قرآن کریم کی تلاوت کا مراقبہ، اپنے فنا ہوجانے کا مراقبہ، مراقبہ کے یہ چندرموز تحریر کردیے گئے تا کہ ان میں سے کسی کو پسند کرکے مراقبہ شروع کردیں اور فائدہ حاصل کریں۔ اور مراقبہ دراصل نام ہے اپنی ہستی اور تمام کائنات کو مٹادینے اور اللہ کی ذات کو تمام احوال میں ثابت رکھنے کا اور بس، پس ہر مسلمان کو چاہیے کہ وہ جہاں کہیں بھی (بشرطیکہ کوئی شرعی مانع نہ ہو) وہ اللہ کا ذکر کرے اور اس کے ذریعہ اپنے دل کی پاکیزگی حاصل کرے۔

مراقبہ کی وجہ تسمیہ: یہ ہے کہ مراقبہ کا اصل مادہ ہے رقیب، جس کے معنی محافظ اور نگرانی کرنے والے کے ہیں، یعنی جب تک مرید مراقبہ میں مشغول ہے تو وہ خواہشات نفسانیہ، شیطانی وساوس اور جسمانی شواغل خواطر قلبیہ خناسیہ سے محفوظ ہوکر اللہ ﷯کی جانب متوجہ ہوتاہے۔ اسی لیے مشہور ہے کہ فکر افضل ہے ذکرسے، اس لیے کہ فکر تو ایک باطنی شغل ہے جس کی کسی کو خبر نہیں، یعنی مراقبہ اس کو کہتے ہیں کہ دل کی نگہبانی کرکے اللہﷻ کی جانب متوجہ کرنا اور جو چیز خدا کے ماسوٰی ہے اس کو دل میں جگہ نہ دینا، سو ایسے آدمی کو صوفیا کی اصطلاح میں اہل دل کہتے ہیں۔

(تذکرہ مشائخِ قادریہ رضویہ: 282)


تایخِ وصال: آپ کا وصال 11؍ ذوالحج 921ھ، مطابق وسط ماہِ جنوری 1516ء کو ہوا۔ آپ کا مزار پرانور دولت آباد دکن (ہند) میں مرجعِ خلائق ہے۔

سببِ وصال: آپ کو عمدہ خوشبو سونگھتے ہی ایسا ذوق و حال طاری ہوتا کہ جاں بلب ہوجاتے تھے، چنانچہ ظاہری سبب آپ کےوصال کا یہی ہوا۔ جس زمانے میں آپ بہت کمزور و ضعیف ہوگئے تھے۔ ایک شخص آپ کی خدمت میں نہایت ہی عمدہ اوراعلیٰ قسم کی خوشبو لایا، تو اسی خوشبو کے اثر سے آپ کی روح قفس عنصری سے پرواز کر گئی۔


شجرہ شریف میں اس طرح ذکر ہے:

طورِ عرفان و علو و حمد و حُسنٰی و بَہا

دے علیؔ موسیٰؔ حسن ؔاحمدؔ بہاؔ کے واسطے


اعلیٰ حضرت رحمۃ اللّٰه علیہ فرماتے ہیں:

 منتقیِ جوہر زجیلاں سید احمد الاماں

بے بہا گوہر بہاء الدین بہا امداد کُن

شیخ بہاء الدین شطاری اور رسالۂ شطّاریہ


یہ مضمون علامہ اسید الحق قادری بدایونی مدظلہ العالی کی کتاب تحقیق و تفہیم سے پیش کیا گیا ہے


حضرت سیدنا شاہ بہاء الدین انصاری قادری شطاری قدس سرہٗ ہندستان میں سلسلہ قادریہ برکاتیہ کے پہلے بزرگ ہیں- اسی لیے آپ کو امام سلسلۂ قادریہ فی الہند کے مبارک خطاب سے یاد کیا جاتا ہے- شہزادۂ غوث اعظم حضرت سیدنا شیخ احمد جیلی قدس سرہٗ سے علوم باطنیہ کی تکمیل کر کے آپ کے ہاتھ پر سلسلہ قادریہ میں بیعت ہوئے جملہ اوراد و اشغال کی اجازت کے ساتھ حضرت احمد جیلی قدس سرہٗ نے خانہ کعبہ کے دروازے کے پاس خرقۂ خلافت سے بھی نوازا- آپ کا وصال ۱۹؍صفر ۹۲۱ھ (اور بعض مؤرخین کے نزدیک ۱۱؍ذی الحجہ) میں ہوا- آپ کا مزار دولت آباد ضلع اورنگ آباد (مہاراشٹر) میں زیارت گاہ خاص و عام ہے- حضرت شیخ عبدالحق محدث دہلوی آپ کے فضل و کمال کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں …

’’صاحب حالات و جامع برکات و کرامات بود‘‘

(ترجمہ : آپ صاحب حال اور جامع برکات و کرامات تھے)

آپ صاحب ولایت ، جامع شریعت و طریقت تھے- عبادت و ریاضت میں یگانہ اور راہ سلوک میں مرشد زمانہ تھے، ساتھ ساتھ صاحب تصنیف بھی تھے- آپ کی مبارک تصنیف رسالہ فی الاوراد والاشغال المعروف بہ رسالۂ شطاریہ صوفیا اور ارباب طریقت کے درمیان مشہور و مقبول رہا ہے- یہ رسالہ آپ نے اپنے مرید خاص اور احب الخلفا حضرت سیدنا شاہ ابراہیم ایرچی کے لیے تحریر فرمایا-

حضرت شاہ تراب علی قلندر صاحب کاکوروی تحریر فرماتے ہیں …

’’رسالہ کہ شیخ بہاء الدین در طریقۂ شطاریہ تصنیف کردہ گویند کہ برائے اورا (سید ابراہیم ایرچی) کردہ (کشف المتواری، ص: ۷۹)-

یہ مبارک رسالہ آج تک نظر سے نہیں گزرا اور نہ ہی اب تک کسی کتب خانے میں اس کے قلمی نسخہ کے موجود ہونے کا علم ہوا ہے- البتہ اس رسالے سے بعض اہم اور مفید اقتباسات حضرت شیخ عبدالحق محدث دہلوی نے اپنی مشہور زمانہ کتاب اخبار الاخیار میں نقل کیے ہیں- اسی سے چند مفید اور اہم اقتباسات تلخیص و ترجمہ کر کے پیش کرنے کی سعادت حاصل کر رہا ہوں-

حضرت شیخ بہاء الدین رسالۂ شطاریہ میں تحریر فرماتے ہیں کہ خدا وند قدوس تک رسائی کے طریقے مخلوق کے انفاس کے برابر ہیں یعنی بہت ہیں- ان سارے طریقوں میں تین طریقے زیادہ مشہور و معروف ہیں …

پہلا طریقہ - اخیار ہے اور وہ نماز، روزہ، تلاوت قرآن مجید، حج اور جہاد ہے- اس طریقے پر چلنے والے طویل سفر طے کرنے کے باوجود بہت کم ہی منزلِ مقصود تک پہنچتے ہیں-

دوسرا طریقہ - اس میں اخلاق ذمیمہ کی تبدیلی، تزکیۂ نفس، تصفیہ دل اور جلائے روح کے لیے مجاہدات و ریاضت کیے جاتے ہیں- اس راستے سے منزل مقصود تک پہنچنے والوں کی تعداد پہلے طریقہ کی بنسبت زیادہ ہے-

تیسرا طریقہ - شطاریہ ہے- اس طریقہ پر چلنے والے ابتدا ہی میں ان منازل سے آگے نکل جاتے ہیں جن پر دوسرے طریقوں کی بنسبت زیادہ عمدہ اور تقرب الی اللہ کے اعتبار سے زیادہ قریب ہے- طریقۂ شطاریہ کے دس اصول ہیں :

(۱) توبہ :- اللہ کے علاوہ ہر شے سے خروج کا نام توبہ ہے-

(۲) زہد :- زہد نام ہے دنیا، اس کی محبت اس کے سامان اور اس کی خواہشات کو ترک کرنے کا-

(۳) توکل:- توکل اسباب دنیا سے کنارہ کشی کو کہتے ہیں-

(۴) قناعت: - خواہشات نفسانیہ کے ترک کو قناعت کہتے ہیں-

(۵) عُزلت: - خلق سے میل جول کے ترک کو کہتے ہیں-

(۶) توجہ الی الحق: - یہ ہر اس چیز کے چھوڑنے کا نام ہے جو غیر حق کی طرف داعی ہو- یہ وہ منزل ہے جہاں خداوند قدوس کے علاوہ کوئی مطلوب، محبوب اور مقصود باقی نہیں رہتا-

(۷) صبر: - یہ انسان کا مجاہدہ کے ذریعہ لذتوں کو چھوڑنا ہے-

(۸) رضا: - اللہ کی رضا میں داخل ہو کر نفس کی رضا سے نکلنے کا نام ہے- اس طرح کہ احکام ازلیہ کو تسلیم کرے اور خود کو بغیر کسی اعراض کے مصلحت خدا وندی کے حوالے کر دے-

(۹) ذکر :- یہ اللہ تعالیٰ کے ذکر کے علاوہ تمام مخلوق کے ذکر کا ترک ہے-

(۱۰) مراقبہ: - یہ اپنے وجود اور قوت سے نکلنے کا نام ہے-

اس کے بعد فرماتے ہیں کہ اسماے ذکر کی تین قسمیں ہیں :

اول : اسم جلال، دوم : اسم جمال، سوم : اسم مشترک-

جب اپنے اندر صفت رعونت و درشتی دیکھے تو پہلے اسم جلال میں مشغول ہوتا کہ اس کا نفس مطیع و فرماں بردار ہو جائے- اسم جلال جیسے یا قہار، یا جبار، یا متکبر-

اس کے بعد اسمِ جمال میں مشغول رہے جیسے یا مالک یا قدوس یا علیم ہے- اس کے بعد اسم مشترک میں مشغول ہو جیسے یا مومن یا مہیمن ہے اور اگر اپنے اندر صفت و انکساری و تواضع اور خاکساری دیکھے تو پہلے اسم جمال میں مشغول ہو- بعدہٗ اسم مشترک میں اور اس کے بعد اسم جلال میں مشغول رہے تاکہ دل صاف ہو اور ذکر دل میں جم جائے-

ذاکر و سالک کے مراتب کے بارے میں حضرت شیخ تحریر فرماتے ہیں … اللہ تعالیٰ کے ننانوے اسما کے ذکر کا ’’مقام تلوین‘‘ ہے اور دسویں اسم کے ذکر کا مقام ’’مقام تمکین‘‘ ہے- اسماے باری تعالیٰ میں ’’اللہ‘‘ اسم ذات ہے باقی ننانوے نام اسماء صفات ہیں- جب تک ذاکر اسماے صفات کے ذکر میں مشغول رہتا ہے مقام تلوین میں رہتا ہے اور اسم ذات کے ذکر سے مقام تمکین میں آ جاتا ہے- لفظ اللہ اللہ اللہ کی تابش سے فانی وجود مٹ جاتا ہے اور مضمحل ہو جاتا ہے اور یہی وہ مقام ہے جہاں مرتبۂ فنا حاصل ہو جاتا ہے- وجود فانی کے محو و معدوم ہونے کا یہی مطلب ہے اور جب خود سے فانی ہو جاتا ہے تو مرتبۂ بقا حاصل ہو جاتا ہے لہٰذا مرید صادق کا دل بغیر ذکر کے ہرگز کشادہ نہیں ہو سکتا اور جب دل کشادہ منور ہوجاتا ہے تو اس پر تمام اشیا کی حقیقتیں منکشف و ظاہر ہوتی ہیں اور عالم ارواح سے ملاقات ہو جاتی ہے-

آگے چل کر حضرت نے ذکر کشف ارواح کے دو طریقے رقم فرمائے ہیں : ایک طریقہ یہ ہے کہ یا احمد کو دائیں جانب کہے اور یا محمد کو بائیں جانب کہے اور دل پر یا رسول اللّٰہﷺ کی ضرب لگائے- دوسرا طریقہ یہ ہے کہ یا احمد کو اپنے دائیں جانب کہے اور یا محمد کو اپنے بائیں جانب اور دل میں یا مصطفٰی کا خیال کرے تمام ارواح کا کشف ہو جائے گا- نیز اسماے ملائکہ مقربین بھی یہی تاثیر رکھتے ہیں- ذکر اسم شیخ کے بارے میں تحریر فرماتے ہیں کہ یا شیخ یا شیخ ہزار بار اس طرح کہے کہ حرفِ ندا (یعنی یا) کو دل سے کھینچ کر اپنے دائیں طرف لے جائے اور لفظ شیخ کی ضرب دل پر لگائے-

ذکر درازی عمر کے بارے میں فرماتے ہیں فجر کی نماز کے بعد طلوع آفتاب تک ایک ہزار مرتبہ ھوالحی القیوم پڑھے اور بعد نماز ظہر ایک ہزار مرتبہ ھوالعلی العظیم پڑھے اور بعد عصر ھوالرحمٰن الرحیم ایک ہزار مرتبہ پھر بعد مغرب ھوالغنی الحمید ہزار بار اور بعد عشا ھواللطیف الخبیر ایک ہزار بار پڑھے(۱) - انشاء اللہ عمر میں برکت ہوگی-

مزید فرماتے ہیں کہ بعض لوگوں نے کہا ہے کہ فکر ذکر سے افضل ہے اس لیے کہ فکر شغلِ باطنی ہے اس پر خدا کے علاوہ غیر مطلع بھی نہیں ہوتا- رب قدیر ہمیں بزرگوں کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے اور ان کے فیوض و برکات سے ہماری دنیا و عقبیٰ کو تابناکی عطا فرمائے (آمین)-

ماہنامہ تصوف ملی کلکتہ

نومبر ۲۰۰۵ء


Post a Comment

Previous Post Next Post