Biography Allama Mansoor Ali Khan Qadari Mumbai علامہ منصور علی خان منصور ملت ممبئی

 Biography Allama Mansoor Ali Khan Qadari Mumbai علامہ منصور علی خان منصور ملت ممبئی


غلام ربانی فدا

آفت جان وہابیت قاطع بدعت حامی سنیت منصور ملت شہزادۂ محبوب ملت فاتح کرناٹک  خلیفہ حضور مفتی اعظم ہند علامہ منصور علی خان علیہ الرحمہ کا ذکر کر رہے ہیں۔

آج کی ویڈیو ہمارے عزیز سبسکرائبر آصف قریشی صاحب کی فرمائش پر پیش کی جا رہی ہے ، آپ سے درخواست ہے کہ ویڈیو پسند آنے کی صورت میں لائک اور شئیر کریں اور پسند نہ آنے کی صورت میں ڈس لائک کا بٹن پریس کریں اور ہمارے چینل کو سبسکرائب کریں۔

خطیب اہل سنت شہزادۂ محبوب ملت سنی بڑی مسجد مدنپورہ ممبئی کے خطیب و امام اور سنی جمعیۃ العلما کے جنرل سیکرٹری حضرت مولانا منصور علی خان قادری رضوی شہر ممبئی کا ذکر خیر کر ہے ہیں۔۔۔۔۔۔ کی فرمائش پر یہ ویڈیو پیش کی جا رہی ہے۔ اس امید کے ساتھ کہ آپ کو یہ ویڈیو پسند آئے گی ویڈیو پسند آنے کی صورت میں لائک اور شئیر کریں اور ہمارے چینل کو سبسکرائب کریں ۔

مولانا منصور علی خان کا شمار باوقار علمائے اہل سنت میں ہوتا ہے ۔ خطیب اہل سنت بیک وقت ایک متبحر عالم دین، عظیم الشان خطیب، باکمال امام ، با ہنر منتظم  نیز کئی کتب و رسائل کے مرتب ومصنف اور حاشیہ نگار ہیں۔ صلح جوئی ان کا خصوصی وصف تھا، اپنوں پر نرمی اور دشمنوں پر سختی ان کا شعار تھا، دینی و ملی کاموں کا جواں حوصلہ اور عزم مصمم رکھتے تھے، آپکے بڑے والد یعنی تایا شیر بیشۂ اہل سنت علامہ حشمت علی خان اور والد ماجد محبوب ملت مفتی محبوب علی خاں تھے ان کا تعارف ہمارے چینل پر ملاحظ کیجئے۔

تایا اور والد نے منصور ملت کو جو ذمے داری دی تھی اور جو مشن چھوڑا تھا زندگی بھر اسے آگے بڑھاتے رہے، یہی ان کی زندگی کا مشن  تھا اور یہی مشن چھوڑ کر وہ دنیا سے رخصت ہوئے۔

۵ اگست ۱۹۴۵ کو لکھنو کے مقبول گنج میں منصور ملت کی ولادت ہوئی، آپ کی ابتدائی تعلیم کاآغاز گھر سے شروعہوا پھر مدن پورہ ممبئی میں واقع میونسپل اردو اسکول میں چارویں تک پھر پانچویں سے ساتویں تک کی تعلیم سیفی ہائی اسکول میں حاصل کی اور اس کے بعد دینی تعلیم کی طرف راغب ہوئے ، والد محترم محبوب ملت محبوب علی خاں علیہ الرحمہ  سے ابتدائی دینی تعلیم وتربیت حاصل کی ساتھ ہی حضور سید العلما سید آل مصطفیٰ مارہروی علیہ الرحمہ سے اکتساب فیض کیا۔ دین کی اعلیٰ تعلیم کے دارالعلوم منظر اسلام بریلی شریف تشریف لے گئے اور وہیں سے تاج فضیلت و سند فراغت سے نوازے گئے۔ سترہ برس کی عمر میں جب ممبئی واپسی ہوئی تو والد ماجد کے مصلے پر کھڑے ہونے کا موقع ملا،

جب آپ کے والد گرامی کا وصال ہوا تو سترہ سال کی عمر میں امامت و خطابت کے فرائض کے ساتھ ساتھ گھریلو ذمہ داریاں بھی آپ کے کاندھوں پر آ گئیں۔

آپ نے ۱۹۶۲ میں سفر حج و زیارت روضہ رسول ﷺ کا شرف حاصل کیا پھر ۱۹۶۵ سے آخری دم مدنپورہ کی سنی بڑی مسجد میں امامت و خطابت کے فرائض انجام دیتے رہے۔

منصور ملت ایک شعلہ بیاں مقررکی حیثیت سے جانے گیے اور ملک گیر شہرت حاصل کی ۔ خطابت کے ساتھ انتظامی امور کی صلاحیت بھی آپ میں پائی جاتی تھی۔مہاراشٹرا و دیگر ریاستوں میں ملک بھر میں آپ کو خطیب کی حیثیت سے بلایا جات تھا۔ کرناٹک میں آپ کی خطابت کا شہرہ رہا۔ آپ کو فاتح شیموگہ اور فاتح کرناٹک بھی کہا جاتا ہے۔

 اسی لیے حضور سید العلما نےسنی جمعیۃ العلما کے جنرل سیکرٹری کی حیثیت سے آپ کو نامزد کیا، اور اس کے زیر اہتمام نکلنے والے تقریباً ۵۷ برسوں تک سالانہ جلوس غوثیہ کا بھی اہتمام فرماتے رہے۔

علامہ منصور ملت نے حضور مفتی اعظم ہند کے دست اقدس پر بیعت کا شرف حاصل کیا اور مولانا مفتی وجیہہ الدین قادری ضیائی پیلی بھیت سے شرف خلافت پایا۔ خطیب اہل سنت بڑی نسبتوں اور عظمتوں کے مالک تھے۔

آپ کی مشہور زنامہ تصنیف خوابوں کی بارات اور تبلیغ یا دھوکہ ہے ۔ ان کتابوں کے کئی کئی ایڈیشن شائع ہو کر قارئین سے داد وتحسین حاصل کر چکے ہیں۔

آپ کی تقریروں سے بہت سارے لوگ راہ راست پر گامزن ہوئے ۔آپ سادات کا بڑا احترام کیا کرتے تھے آندھرا کے بیشتر علاقوں کی سنیت کو پر بہار کرنےمیں آپ نے بنیادی کردار ادا کیا ہے ۔

بزرگوں کے بڑے عاشق وشیدا تھے سیدنا حضرت مفتی اعظم ہند اور دیگر اکابرین کے ساتھ مفتی مالوہ حضرت مفتی رضوان الرحمن فاروقی اور مفتی اعظم مہاراشٹر حضرت علامہ مفتی غلام محمد خان قبلہ علہیم الرحمہ پر بڑا اعتماد فرماتے تھے اور ہمیشہ ان بزرگوں سے رابطے میں رہاکرتے تھے-

خطیب اہل سنت نے ۶ اکتوبر ۲۰۱۵ کو منگل کی شب تین بجکر دس منٹ پر اس جہان فانی کو الوداع کہا۔ اور دنیائے  سنیت ایک بڑے غم سے دو چار ہوئی۔اور یوں دنیائے سنیت کا عظیم آفتاب اور بڑی نسبتیں رکھنے والا عالم دین اپنی ممتاز خوبیوں اور بے شمار خصوصیات کے ساتھ عالم آخرت کی طرف کوچ کر گیا۔ اور اپنی پیچھے بے شمار یادیں ، قربانیاں اور نشانیاں چھوڑ گیا جو عرصۂ دراز تک اسے فراموش نہیں کیا جا سکے گی اور دنیائے سنیت پر اس کی قربانیوں کا قرض قیامت رہے گی۔


Post a Comment

Previous Post Next Post