Biography Hazrat Syed Mohammad Ashraf Miyan Barkati Qadri حضرت سید محمد اشرف مارہروی برکاتی

 سید محمد اشرف مارہروی کے حالاتِ زندگی اور ادبی کارنامے 

از: عطاء الرحمن شیخ فضل الرحمن 

(ریسرچ اسکالر ، ڈاکٹر بابا صاحب امبیڈکر مراٹھواڑہ یونیورسٹی، اورنگ آباد ،مہاراشٹر)

M.A., B.Ed., MH-SET, NET-JRF & Journalism

مارہروہ مطہرہ جیسے دیندار ،علمی ، ادبی ، علوم و فنون کے گہوارہ اور خانقاہی گھرانے میں سید محمد اشرف کی پیدائش ہوئی۔اللہ تعالیٰ نے آپ کو ظاہری اور باطنی بے شمار جمالیاتی خوبیوں سے نوازا ہے ۔ اپنے اسلاف کی صوفیانہ اور اخلاقی روایات کے امین ہیں تعمیری فکر ومزاج کے ساتھ کچھ کر گزرنے کے عزم و حوصلے سے سرشار نظر آتے ہیں ۔ عصری علوم کے ساتھ ساتھ اسلامیات کے بھی رمزشناس ہیں ، اردو شعر و ادب میں تو ان کا مقام بہت بلند ہے ، وہ عظیم فکشن نگار بھی ہیں اور مختلف اصناف کے قد آور شاعر بھی ، خانقاہی مزاج کے ساتھ روشن خیالی اور بلند اخلاقی ان کا طرۂ امتیاز ہے ۔ بڑوں سے پینگیں بڑھانا تو سب کو اچھا لگتا ہے مگر اصاغر نوازی اور چھوٹوں پر شفقت و محبت کا ہنر تو کوئی ان سے 



سیکھے ۔ 

حضرت احسن العلماء رحمۃ اللہ علیہ کے آپ دوسرے صاحبزادے ہیں۔ آپ کی ولادت 8؍ جولائی 1957ء بمطابق 14؍ شعبان 1374ھ کو سیتاپور میں ہوئی۔ آپ کا خاندانی اسم گرامی سید مجتبیٰ حیدر قادری برکاتی ہے لیکن بڑے ابا حضرت سیدالعلماء مفتی سید آل مصطفی سید میاں مارہروی قدس سرہٗ نے آپ کا نام سید محمد اشرف رکھااور اسی نام سے آپ کی شہرت ہے۔ حضرت تاج العلماء سید محمد میاں قادری برکاتی مارہروی رحمۃ اللہ علیہ نے ولادت کے بعد سیتاپور جا کر آپ کو بیعت سے مشرف کیا۔ والد محترم حضرت احسن العلماء ، بڑے اباحضرت سیدالعلماء اورحضرت وارث پنجتن نے تمام سلسلوں کی خلافت و اجازت عطا فرمائی لیکن آپ انکساری کے سبب لوگوں کو داخل سلسلہ نہیں فرماتے ہیں۔ آپ کی تسمیہ خوانی والد گرامی حضر ت احسن العلماء نے فرمائی۔ تعلیم مارہرہ اور علی گڑھ میں ہوئی۔ 

سید محمد اشرف کے تین بھائی اور ایک بہن ہیں۔ پروفیسر سید محمد امین میاں آپ سے بڑے ہیں۔ سیدہ ثمینہ خاتون نقوی ، سید محمد افضل اور سید نجیب حیدر قادری آپ سے چھوٹے ہیں۔ آپ کی شریکِ حیات کا نام سیدہ نشاط اشرف ہے ۔ سید محمد اشرف کے تین بچے سید نبیل اشرف، سیدہ شفاء اشرف اور سید ناظم اشرف ہیں۔ سید محمد اشرف کا ننھیال اور ددھیال صدیوں سے ادیبوں کا گہوارہ رہا ہے ۔ ان کے ددھیال میں سید برکت اللہ عشقی ؔ، سید آل احمد ، سید حمزہ عینیؔ ، سید ابوالحسین احمد نوری نورؔ ، سید اسمٰعیل حسن وقارؔ ، سید اولاد رسول فقیرؔ ، سید آل عبا المعروف حضرت آوارہ ؔ ، سید آل مصطفی، سید مارہروی، سید مصطفی حیدر حسن مارہروی، سید آل رسول نظمی  ؔ، ڈاکٹر سید محمد امین اور سید محمد افضل ہیں۔ آپ کے ننھیال میں ریاض خیرآبادیؔ ، سید رئیس احمد جعفری ، سید محمد آفات نقوی اور سید ابوالحسن نظمی ؔجیسے ادیب و شاعر ہیں۔ 

سید محمد اشرف کے بقول : 

’’دادھیالی اجداد میں سید صاحب عالم بھی تھے جنھیں غالب نے بہت سے خط لکھے ہیں۔ غالب ان کو پیرومرشد لکھ کر مخاطب کرتے تھے۔ ‘‘

(’’بادِ صبا کا انتظار‘‘از سید محمد اشرف کا تنقیدی جائزہ ،ص؍4، مقالہ نگار حافظہ شاہدہ جاوید ، گورنمنٹ کالج یونیورسٹی ، فیصل آباد، اگست 2018ء )

بسم اللہ خوانی والد ماجد نے کرائی ۔آپ طالب علمی کے زمانے ہی سے بے حد ذہین ہیں ۔ آپ کی تعلیم کا آغاز مدرسہ قاسم البرکات سے ہوا۔ قرآن عظیم کا درس حضرت والد ماجد ، پھوپھی صاحبہ سیدہ حافظہ عائشہ خاتون اور سیدہ حافظہ زاہدہ خاتون اور حافظ عبدالرحمن نے دیا۔ اُردو کی تعلیم منشی سعید الدین اور منشی نصیر احمد نے دی۔ قصبہ سے ہائی اسکول کرکے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں داخل ہوئے جہاں سے بی ۔ اے ۔آنرس اور پھر ایم۔ اے۔ میں بفضلہ تعالیٰ یونیورسٹی میں ٹاپ کیے اور دو گولڈ میڈل حاصل کیے۔ادبی مشغولیات ہمیشہ سے زندگی کا حصہ رہی ہیں۔ اچھی چیزیں پڑھتے تھے ۔ دورانِ طالب علمی ہی میں کہانیاں بھی لکھنا شروع کر دیے تھے اور آج اُردو فکشن کے نامور قلمکاروں کی فہرست میں آپ کا نام نمایاں نظرآتا ہے۔

سول سروسیس امتحان میں تین مرتبہ شریک ہوئے اور تینوں مرتبہ سُرخرو ہوئے۔ انڈین ریونیو سروسیس (IRS)میں خدمات انجام دیتے ہوئے ریٹائرڈ ہوئے۔ شرف ملت کو یہ شرف بھی حاصل ہے کہ سول سروسیس امتحان کو اُردو میڈیم کے ساتھ کامیاب کرنے والے آپ پہلے اُمیدوار ہیں۔ جس وقت یونین پبلک سروس کمیشن میں آپ کا سلیکشن ہواتھا اس وقت آپ ایم ۔اے کے سال اوّل میں تھے۔ ایم۔ اے مکمل کیے بغیر ٹریننگ پر روانہ ہوئے۔ ٹریننگ کے بعد ایم۔ اے ۔ مکمل کیا اور اس کے بعد 1981ء سے پیشہ وارانہ زندگی کا آغاز کیا۔ انکم ٹیکس آفیسر، اسسٹنٹ کمشنر، ڈپٹی کمشنر، جوائنٹ کمشنر ، اڈیشنل کمشنر، کمشنراور چیف کمشنر جیسے معزز عہدوں پر فائز رہے۔ آپ کو انکم ٹیکس سیٹلمنٹ کا ممبر بھی نامزد کیا گیا تھا۔ 

سید محمد اشرف کا بھرا پورا خاندان ہے۔ ایک تعلیم یافتہ اور معزز گھرانے میں آپ کا نکاح ہوا ہے۔ اپنی شادی کی متعلق شرف ملت خود لکھتے ہیں :

’’راقم الحروف کی شادی پروفیسر سید علی اشرف صاحب مرحوم و مغفور سابق وائس چانسلر جامعہ ملیہ اسلامیہ کی صاحبزادی سیدہ نشاط اشرف سے ہوئی ۔ سیدہ نشاط اشرف نے علی گڑھ گرلس کالج سے ایم ۔ ایس۔ سی ۔ فرسٹ ڈویژن سے کیا ہے۔ حضور احسن العلماء کی علالت کے دورانِ قیام بمبئی کے زمانے میں اس بہو نے حضور احسن العلماء علیہ الرحمۃ کی خوب خدمت کی اور دعائیں لیں۔ بفضلہ تعالیٰ دو بیٹے اور ایک بیٹی اللہ تعالیٰ نے عطا فرمائے ہیں۔ سید نبیل اشرف، سید ناظم اور سیدہ شفااشرف۔ ‘‘ 

(یادِ حسن ، سید محمد اشرف ، ص94، ناشر : دارالاشاعت برکاتی خانقاہ خانقاہِ برکاتیہ، مارہرہ مطہرہ ضلع ایٹہ یوپی ،سال اشاعت 2003ء )

سید محمد اشرف انتہائی ملنسار ، مخلص ، نیک دل اور مشفق انسان ہیں۔ آپ کی سیرت وشخصیت پر روشنی ڈالتے ہوئے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی شعبۂ جغرافیہ کے لیکچرار ڈاکٹر احمد مجتبیٰ صدیقی اپنی تاریخی کتاب ’’ تذکرۂ مشائخ مارہرہ ‘‘ میں رقمطراز ہیں :

’’ دنیاوی اعتبار سے بڑے منصب پر فائز ہونے کے باوجود خانوادہ کے تمام امتیازات سے بھی آپ کو خوب حصہ ملا۔ دینی مزاج ، علما و مشائخ کا احترام ، عشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم ، بزرگان دین سے محبت، تواضع و انکساری ، خلوص ومحبت ، مروت اور سنجیدگی و بردباری جیسی اچھی صفات آپ کی شخصیت و کردار میں رچی بسی ہیں۔ غریبوں کی مدد کے لیے ہر وقت خوشی سے تیار رہنا آپ کو سب سے زیادہ اچھا لگتا ہے ۔ حضرت شرف ملت بہت باتدبیر اور حلیم شخصیت کے حامل ہیں۔ چھوٹے چھوٹے جملوں میں بڑی بڑی نصیحتیں کر دینا آپ کی شخصیت کا اہم حصہ ہے۔‘‘ 

( تذکرۂ مشائخ مارہرہ،ڈاکٹر احمد مجتبیٰ صدیقی،ص؍105، ناشر: البرکات اسلامک ریسرچ اینڈ ٹریننگ انسٹی ٹیوٹ علی گڑھ، سن اشاعت نومبر2016ء )

علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں دورانِ تعلیم مختلف نصابی سرگرمیوں میں حصہ لیتے رہے۔ ان کی ذاتی محنت، ذوق ،شوق اور انتظامی اُمور میں مہارت کے سبب مختلف کلبوں کا سکریٹری اور ادبی رسالوں کے ایڈیٹر کا عہدہ بھی تفویض کیا گیا۔ ذیل میں تفصیلات درج ہے : 

(1) سکریٹری ، گریٹ بک کلب 1974-75ء 

(2) مدیر، آفتاب میگزین 1974-75ء 

(3) سکریٹری ، لٹریری سوسائٹی ، آفتاب ہال 1975-76ء 

(4) سکریٹری ، لٹریری کلن 1976-77ء

(5) سکریٹری ، انجمن اُردوئے معلی 1977-78ء 

علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں آپ کو جو اُستاد ملے ان سے آپ کو بہت کچھ سیکھنے ،سمجھنے اوربرتنے کا موقع ملا۔اُس وقت علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے اساتذہ مختلف علوم وفنون میں ماہر ، اُردو اصناف ادب پر کامل دسترس رکھنے والے ، طلبہ و طالبات سے بیحد محبت کرنے والے اور اپنے مضمون کے تئیں انصاف پسند تھے۔ وہ ہمیشہ اس بات کی کوشش کرتے کہ ان کے شاگردلکیر کے فقیر اور کتابی کیڑے نہ بنیں بلکہ بہترین تخلیقی صلاحیتوں کے مالک بنیں۔ اس بابت ان کی کوششیں یقینا سراہے جانے کے قابل ہیں۔ قاضی عبدالستار ، پروفیسر نورالحسن نقوی ، پروفیسر شہریار اور حسام الدین جیسے قابل اساتذہ سے آپ نے فیض حاصل کیا ۔

اپنے ان مشفق اُستادوں کے متعلق سحر ٹی وی پر انٹرویو دیتے ہوئے سید محمد اشرف کہتے ہیں :

’’ ادب میں ہم کو ایسے ایسے استاد نصیب تھے جن میں آل احمد سرور ، خلیل الرحمن اعظمی، قاضی عبدالستار صاحب ،شہریارصاحب اور وحید اختر صاحب شامل تھے۔ رشید احمد صدیقی کو بھی ہم نے دیکھا حالاںکہ اس وقت وہ ریٹائر ہو چکے تھے۔ ‘‘

(ڈاکومینٹری ، سفیرانِ قلم ، سید محمد اشرف، سحر اُردو ٹی وی چینل ، نشر 7؍ مئی 2017ء )

اساتذۂ کرام کے ساتھ حلقۂ یاراں کا ذکر کرتے ہوئے آپ کہتے ہیں: 

’’ہمارے ساتھیوں میں شارق ادیب ، فرحت احساس، طارق چھتاری، غیاث الرحمن ، پیغام آفاقی ، مہتاب حیدر نقوی ، آشفتہ چنگیزی تھے۔شعرا میں اسد بدایونی اور منظور ہاشمی صاحب کے ساتھ ہم لوگ بہت بیٹھا کرتے تھے۔ معین احسن جذبیؔ صاحب ہم لوگوں کو بٹھا کر چائے پلاتے تھے ۔ ایسا رَچا بسا ماحول تھا علی گڑھ کا ہمارے زمانے میں ، نسیم قریشی صاحب تھے ، چلتی پھرتی غزل بلکہ چلتا پھرتا مشاعرہ تھے ۔ تو ایسے ایسے لوگوں کے ساتھ ہمارا لڑکپن اور شروع جوانی کا دور گذرا ہے کہ بڑا قیمتی اور قبیل ہم اپنے آپ کو سمجھتے تھے ان معاملات میں اور اسی سے ہم لوگوں کو اور ہمارے ساتھیوں کو بڑا اعتماد بھی ملا۔ ‘‘

(ڈاکومینٹری ، سفیرانِ قلم ، سید محمد اشرف، سحر اُردو ٹی وی چینل ، نشر 7؍ مئی 2017ء )

قاضی عبدالستار صاحب مشہور افسانہ نگار اور ناول نگار تھے۔ آپ کو ہمیشہ افسانہ لکھنے کی ترغیب دیتے تھے۔چنانچہ آپ فرماتے ہیں :

’’ قاضی عبدالستار صاحب کا ساتھ نصیب ہوا تو ہم مل کر ان کے افسانے پڑھتے تو بڑا اچھا لگتا تھا۔ انھوں نے ترغیب دی کہ تم بھی لکھا کرو۔ ہم نے کہا کہ ہم پہلے کچھ لکھتے تھے ، کہتے اب بھی لکھا کرو۔ اس کے بعد لکھنا شروع کیا۔ سب سے پہلی کہانی وہاں لکھی جو مشہور نہیں ہوئی۔ جو زیادہ مشہور ہوئی اس کا نام ’’ چکر‘‘ تھا۔ لوگوں نے بہت پسند کی۔ کو کہیں ’’ سورج کے چکر‘‘ کے نام سے بھی مشہور ہوئی۔

(ڈاکومینٹری ، سفیرانِ قلم ، سید محمد اشرف، سحر اُردو ٹی وی چینل ، نشر 7؍ مئی 2017ء )

سید محمد اشرف کی تصنیفات میں دو افسانوی مجموعے ، چار ناول ، ایک نعتیہ مجموعہ دو تصنیف اور تین ترتیب و تدوین کی کتابیں شامل ہیں :

٭ ڈار سے بچھڑے (افسانوی مجموعہ) 1994ء 

٭ نمبردار کا نیلا (ناول) 1997ء 

٭ باد ِصبا کا انتظار (افسانوی مجموعہ) 2000ء 

٭ آخری سواریاں (ناول) 2016ء 

٭ میرامن قصہ سنو (ناول)

٭ مردار خور (ناول)

٭ صلواعلیہ و آلہ (نعتیہ کلام ) 2004ء 

٭ داستانِ نور ( سوانح حیات سید شاہ ابوالحسین نوری میاں صاحب ) 2003ء

٭ یادِ حسن ( والد ماجد احسن العلماء کی سوانح حیات) 2003ء

٭ شہر ملال ( کلیات عرفان صدیقی)

٭ سلطان الہند ( حضرت خواجہ معین الدین چشتی رحمۃ اللہ علیہ کی حیات پر مضامین کا گلدستہ) نومبر 2015ء 

٭ رُخِ مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم ہے وہ آئینہ(پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ پرمبنی گلدستۂ مقالات) نومبر 2016ء 

سید محمد اشرف بہت کم لکھتے ہیں مگر بہت اچھا اور ستھرا لکھتے ہیں۔ ایسا لکھتے ہیں جس کی گونج پوری ادبی دنیا میں سنائی دیتی ہے ۔ اپنے کم لکھنے کے بارے میںخود کہتے ہیں :

’’ میں بہت ہی کم لکھ پاتا ہوں۔ سال میں ایک آدھ کہانی لکھتا ہوں۔ کبھی کوئی خوش قسمت سال ہوتا ہے کہ دو کہانیاں مکمل ہوتی ہیں۔ اسی لحاظ سے میری جو ادبی عمر ہے لگ بھگ اتنی ہی کہانیاں ہیں۔‘‘ 

(ڈاکومینٹری ، سفیرانِ قلم ، سید محمد اشرف، سحر اُردو ٹی وی چینل ، نشر 7؍ مئی 2017ء )

سید محمد اشرف کے افسانوں کے اُردو زبان کے علاوہ انگریزی ، ہندی ، مراٹھی اور اُڑیہ وغیرہ زبانوں میں ترجمے ہو چکے ہیں۔

سید محمد اشرف کبھی ڈائریکٹ میسیج نہیں دیتے ۔ ان کی نصیحت ہمیشہ اِن ڈائریکٹ وے میں ہوتی ہے ۔ ان کا ماننا ہے کہ جیسا بوئوں گے ویسا کاٹو گے۔ اگر ذہن میںبرائی ہے ، چاہے کتنے ہی ہتھکنڈے آزما لو ، اس میں برائی خود بہ خود آجائے گی ، کیوں کہ اگر نیت صاف نہیں تو منزل بھی آسان نہیں ۔

سید محمد اشرف اپنے ناولوں اور افسانوں میں تمثیل سے کام لیتے ہیں۔ وہ اپنی بات کو اس طرح قاری تک پہنچانے کی کوشش کرتے ہیںکہ قاری اس بات کی تہہ بہ تہہ کو سمجھ سکے۔ تہہ بہ تہہ سے مراد یہ کہ کہانی کے پس منظر، پیش منظر ، مقصد ، مدعا اور مخفی نصیحت کو جان لینا۔بمثل پیاز۔ جس طرح پیاز کی ایک پرت اُتار دیں تو پیاز اندر سے بالکل ترو تازہ اور ایک نئی شکل و صورت کے ساتھ دوبارہ نظر آنے لگتی ہے۔پھر دوسری پرت اُتار دیں تو ایک نئے رنگ کے ساتھ بالکل ویسے ہی تروتازہ ہو جاتی ہے۔ پیاز کی مانند سید محمد اشرف کی کہانیاں تہہ بہ تہہ چلتی ہیں۔ 

افسانوی مجموعے ’’ڈار سے بچھڑے‘‘ کی وجہ سے سید محمد اشرف کو بہت شہرت ملی۔ یہ ان کا پہلا افسانوی مجموعہ ہے جس میں کل 19؍ افسانے شامل ہیں۔ یہ مجموعہ ’’ تخلیق کار پبلشرز نئی دہلی ‘‘ سے شائع ہوا ہے۔ اس افسانوی مجموعے میں سید محمد اشرف نے جانوروں ، پرندوں اور موسموں کے حوالے سے تمثیلی پیرائے میں اپنی بات پہنچانے کی کوشش کی ہے۔ حیوانات کو عصری ، سماجی و ثقافتی حالات اور ان سب کے درمیان جینے والے انسانوں کی باتیں کہیں استعاراتی اور کہیں علامتی انداز میں بیان کی ہیں۔ ’’ ڈار سے بچھڑے ‘‘ میں شامل افسانوں کے نام اس طرح ہیں : 

(1) آدمی (2) چکر (3) لکڑ بگھا ہنسا

(4) بڑے پل کی گھنٹیاں (5) کعبے کا ہرن (6) لکڑ بگھا رویا

(7) دوسرا کنارہ (8) گدھ (9) لکڑ بگھا چپ ہو گیا 

(10) وہ ایک لمحہ (11) ڈار سے بچھڑے (12) جنرل نالج سے باہر کا سوال 

(13) منظر (14) ببول کے کانٹے (15) بلبلہ 

(16) قدیم معبدوں کا محافظ (17) قربانی کا جانور (18) آخری بن مانس 

(19) روگ ۔ 

سید محمد اشرف کا دوسرا افسانوی مجموعہ ’’ بادِ صباکا انتظار‘‘ 2000ء میں ایڈ شاٹ پبلی کیشنز ممبئی سے شائع ہوا ہے۔اس مجموعہ پر آپ کوساہتیہ اکیڈمی ایوارڈ ملا ہے ۔ اس مجموعے میں 9؍ افسانے شامل ہیں ، جن کے نام حسب ذیل ہے :

(1) ساتھی (2) چمک (3) طوفان 

(4) اندھا اونٹ (5) دعا (6) بادِ صبا کا انتظار 

(7) نجات (8) آخری موڑ پر (9) تلاشِ رنگ رائیگاں۔ 

  اس مجموعے میں شامل ایک کہانی ’’ بادِ صباکا انتظار‘‘ میں آپ نے زبان و بیان کے متعلق پیغام دینے کی کوشش کی ہے۔ اس کہانی میں انھوں نے بتایا ہے کہ زبان کا عروج و زوال کس طرح ہوا؟ یہ بہت اہم کہانی ہے ۔اس میں اُردو زبان کی تاریخ اور عروج وزوال کی داستان کا بیان ہے۔ زبان و بیان اور اپنے برتائو کے لحاظ سے یہ کہانی اچھی اور منفرد ہے ۔ سید محمد اشرف نے شیریں اور دلکش زبان کے ذریعے اس کا حق ادا کر دیا ہے ۔ اپنے وقت کے سب سے بڑے کہانی کار انتظار حسین نے بھی اسے کافی پسند کیا ہے ۔سید محمد اشرف نے اس میں منجھی ہوئی اور تہہ دار زبان کا استعمال کیا ہے ۔

سید محمد اشرف کا ناول ’’ آخری سواریاں‘‘ 2016ء میں ’’عرشیہ پبلی کیشن دہلی ‘‘ سے شائع ہوا ہے ۔ ناو ل 209؍ صفحات پر مشتمل ہیں۔ اس ناول میں انھوں نے قدروں، روایات ، تہذیب و ثقافت اور مراسم کے زوال کو پیش کیا ہے۔ آخری مغل شہنشاہ بہادر شاہ ظفر کو رنگون بھیجنے کے تاریخی منظر کو افسردہ مگر نصیحت آموز انداز میں پیش کیا ہے۔ انھوں نے اس سواری کے ساتھ ہندوستانی تہذیب و ثقافت،رسم ورواج اور بھائی چارگی جیسے مٹتے ہوئے اوصاف کانقشہ کھینچا ہے۔ آخری سواریاں زبان و بیان کے لحاظ سے بھی بے حد عمدہ اور اپنی مثال آپ ہے۔ اس میں سید محمد اشرف کے خلاقانہ ذہن نے بڑی صاف ستھری اور چمکتی دمکتی اردو نثر سے کام لیا ہے۔ یہ ایک ایسا دلچسپ بیانیہ ناول ہے جسے ایک بار پڑھنے کے بعد دوبارہ بلکہ سہ بارہ پڑھنے کی خواہش جاگ اٹھتی ہے۔

سید محمد اشرف نثر کے ساتھ ساتھ نظم میں بھی نمایاں مقام رکھتے ہیں ۔ نعت ، منقبت ، غزل ، قطعات ، رباعی وغیرہ اصناف پر آپ مسلسل طبع آزمائی فرماتے رہتے ہیں ۔ شعر جذبوں کے جمالیاتی اظہار کو وسیلہ ہے عہد حاضر میں نعت کے جمالیاتی اظہار پر قادر اور موضوع کے تقدس کا ادراک رکھنے والے اردو کے شعر کی تعداد خاصی طویل ہے۔ اس طویل فہرست میں اشرفؔ مارہروی کا نام کافی بلندی پر ہے۔ نعت نگاری فنکاری نہیں توفیق الٰہی سے سعادت مندی ہے۔ سرورکائنات  ﷺ کی ذات جلوہ نما ہوتی ہے تو شاعر کے دل کی دنیا مہک اٹھتی ہے اور حریم دل میں کیف آگیں عشق کے چراغ فروزاں ہوجاتے ہیں نعت پیرہن نور بھی ہے اور ایمان کی سا  لمیت کا پیمانہ بھی ، اس میں کمال ادب اور احتیاط ضروری ہے ۔ امام احمد رضا بریلوی نے کتنے پتے کی بات کہی ہے ’’نعت لکھنا تلوار کی دھار پر چلنا ہے۔‘‘ افراط و تفریط کی حد بندی نے اس رہ گزر کو پل صراط بنادیا ہے ۔ جہاں بڑے بڑے کجکلاہانِ فکر و فن کے قدم لرزتے ہیں لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ سید محمد اشرف اس پل صراط پر بڑی خوش اسلوبی سے گزررہے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ انھوں نے دنیا ئے شعر و سخن کو نعتوں اورمنقبتوں کاایک خوب صورت مجموعہ ’’ صلواعلیہ وآلہ‘‘ کے نام سے 2004ء میںہی دے دیا جسے بے پناہ مقبولیت حاصل ہوئی۔یہ دل کش شعری مجموعہ 136؍ صفحات پر مشتمل ہے جس میں 1؍ حمد باری تعالیٰ ، 14؍ نعتیں، 21؍ منقبتیں ،1؍ سلام، 1؍ سہرااور 1؍ رخصتی شامل ہے۔ سید محمد اشرف کا شعری سفر صلوا علیہ وآلہ پر آکر رک نہیں گیا ہے بلکہ ان کی کارگاہِ فکر و خیال میں گاہے بہ گاہے نعت و مناقب ، قصائد و سلام اور نظمیں ڈھلتی رہتی ہیں۔ ان کی شاعرانہ خوبیاں بڑے خاصے کی چیز ہیں ۔ان کے یہاں موجود شعر و فنی محاسن نے انھیں معاصرنعت گو شعرا میں ایک ممتاز مقام عطا کردیا ہے۔

  سید محمد اشرف مارہروی نے چشم و چراغ خاندان برکات سید شاہ ابوالحسین احمد نوری میاں صاحب علیہ الرحمہ کی سوانح حیات بھی لکھی ہے جو کہ کتابی شکل میں میں رضا اکیڈمی ممبئی سے شائع ہوچکی ہے۔ 112؍ صفحات پر مشتمل یہ کتاب سید شاہ ابوالحسین نوری میاں صاحب کی سوانح کے باب میں نہایت مستند درجے کی حامل ہے۔ یہ کتاب خاندانِ برکات کے ایک بزرگ کے حالات پر مشتمل ہے جسے خاندان ہی کے ایک فرد نے لکھا ہے اور اس بات کا مکمل طور پر لحاظ رکھا گیا ہے کہ ممدوح کی تعریف و توصیف اور ان کے سوانحی بیان میں ذاتی عقیدت و محبت حاوی نہ ہو بلکہ وہی لکھا جائے جو سچ ہے ۔

سید محمد اشرف مارہروی نے اپنے والد گرامی احسن العلماء سید مصطفی حیدر حسن میاں علیہ الرحمہ کی جامع سوانح حیات بنام ’’یادِ حسن ‘‘ قلم بند کی تھی۔ 358؍ صفحات پر مشتمل اس کتاب کو 2003ء دارالاشاعت برکاتی ، بڑی سرکار ، خانقاہ برکاتیہ ، مارہرہ مطہرہ نے شائع کیا تھا۔

اسی طرح عطاے رسول غریب نواز حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری قدس سرہٗ کی حیات و خدمات پر مضامین کا حسین گلدستہ ’’ سلطان الہند‘‘ کے نام سے سید محمد اشرف نے ترتیب دیا ہے۔ 599؍ صفحات پر مشتمل اس کتاب کو البرکات اسلامک ریسرچ اینڈ ٹریننگ انسٹی ٹیوٹ نے نومبر 2015ء میں شائع کیا ہے۔اس کتاب میں 28؍ مضامین شامل ہیںجو کسی نہ کسی طور سے خواجۂ بزرگ اور مشائخ چشت کی حیات وخدمات اور احوال وافکار کا احاطہ کرتے ہیں۔ مضامین چونکہ ایک ہی شخصیت سے متعلق ہیں اس لیے اکثر اصحابِ قلم نے سلسلۂ کلام کو جوڑنے کے لیے حیات مبارکہ کا اجمالی احاطہ کرنے کی کوشش فرمائی ہے۔ یہی سبب ہے کہ مضامین میں تکرارہے مگر یہ تکرار و توارد قند مکرر کی صورت رکھتی ہے ، اس لیے مرتب سید محمد اشرف نے اسے جوں کا توں رکھا ہے ۔ سر زمین ہند پر اسلام کی فصل بہاری کو مزید مستحکم اور توانا کرنے والی عظیم المرتبت شخصیت سلطان الہند خواجہ غریب نواز علیہ الرحمہ کی حیاتِ طیبہ پر مبنی یہ معلومات بخش کتاب نہ صرف اپنی لائبریری کی زینت بنائے جانے کے لائق ہے بلکہ مطالعے کے دسترخوان پر سجا کر اس سے اپنے علم میں گراں قدر اضافہ کیا جانا چاہیے۔ 

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ پرمبنی گلدستۂ مقالات بنام ’’ رُخِ مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم ہے وہ آئینہ‘‘ کو سید محمد اشرف نے مرتب کیا ہے جسے البرکات اسلامک ریسرچ اینڈ ٹریننگ انسٹی ٹیوٹ نے نومبر 2016ء میں شائع کیا ہے۔648؍صفحات پر مبنی یہ کتاب اپنے موضوع اور مواد کے لحاظ سے بڑی اہم اور مفید ہے ۔ آج تمام عالم اسلام کو جس چیز کی سب سے زیادہ ضرورت ہے وہ سیرت محمدیﷺ اور حقیقت محمدیﷺکو سمجھنے کی ضرورت ہے اور اس سے زیادہ ضرورت دوسروں کو سمجھانے کی ہے۔ اس زمانے میں کچھ نا عاقبت اندیش نصرانی اورصیہونی طاقتیں اس مذہب کو سرنگوں کرنے کے لیے ہمارے نبی ﷺ کی ذات والا ہی کو نشانہ بنا رہی ہیں۔ وہ اس دانائے سبل مولائے کل کے بارے میں زبانیں دراز کر رہے ہیں جس نے غبار راہ کو فروغ وادیٔ سینا عطا کیا۔ جس کو عالم و عالمین کے لئے رحمت بنا کر بھیجا۔ جو کائنات میں سب سے افضل سب سے بہتر ہے۔ جس کے ہونے میں اس کائنات کا ہونا مقصود ٹھہرا ہے آج جب کہ چاروں طرف سے آقا علیہ السلام کی شخصیت پر پراگندہ فکر کے حامل افراد کیچڑ اچھالنے کی ناپاک کوشش کررہے ہیں تو ضروری ہوجاتا ہے کہ آپ کی سیرت طیبہ اور محاسن جمیلہ کو بار بار عام و تام کیا جائے۔ وقت کی اسی ضرورت اور اہمیت کا ادراک کرتے ہوئے اہل سنت کی آواز کا ایک خصوصی شمارہ ’’ مصطفی جان رحمت ﷺ‘‘2006ء میں شائع کیا گیا تھا ۔اس کی افادیت زیادہ عام کرنے کی خاطراسی کو علاحدہ سے کتابی صورت میں ’’ رخِ مصطفی ہے وہ آئینہ کے نام ‘‘ سید محمد اشرف نے ترتیب دیا ہے۔ اس کتاب میں سیرت پاک کے وہ تمام مخصوص گوشے لیے گئے جو عوام الناس کو جاننا ضروری ہے ۔ اس کتاب میں موجود تمام مضامین ان صاحبان قلم کی محنتوں کا ثمرہ ہیں جو اپنے علم اور علمی دیانت داری کے سبب بڑے ممتاز اور معتبر تصور کیے جاتے ہیں۔ ان حضرات میں بزرگ قلم کار بھی ہیں اور وہ نوجوان صاحب قلم بھی ہیں جو اپنی علمی سنجیدگی اور شخصی متانت کے سبب نوجوانی میں بزرگوں جیسا مرتبہ حاصل کر چکے ہیں۔

  سید محمد اشرف نے ’’ شہر ملال‘‘ کے نام سے ہندوپاک کے معروف شاعرعرفان صدیقی کی کلیات مرتب کی ہے ۔ عرفان صدیقی کی کسی حد تک ادھوری کلیات ’’ دریا ‘‘ کے نام سے 1999ء میں پاکستان سے منظر عام پر آچکی تھی مگر اس کلیات سے خود عرفان صدیقی بھی بہت زیادہ مطمئن نہیں تھے بلکہ وہ کلیات کے نام ’’ دریا‘‘ سے بھی نامطمئن تھے۔ ان کی وفات کے بعد سید محمد اشرف نے غیر مطبوعہ کلام کو یکجا کرکے ’’ شہر ملال‘‘ کے نام سے عرشیہ پبلی کیشنز سے شائع کیا۔ سید محمد اشرف کی دو کہانی ’’ ڈار سے بچھڑے ‘‘ اور ’’ دوسرا کنارا‘‘ کے نام عرفان صدیقی کی ہی عطا ہیں۔ عرفان صدیقی کی کلیات کے لیے سید محمد اشرف نے کئی نام سوچے تھے جیسے زنجیر میں رقص، وسعتِ زنداں، منظر شب تاب ، دریا سے آگے وغیرہ۔ لیکن عرفان صدیقی کی شاعری کے موضوعات ، متعلقات اور کیفیات کے مدنظر انھیں ’’ شہر ملال‘‘ سب سے بہتر معلوم ہوا۔اس مجموعے میں سید محمد اشرف کے زرنگار قلم نے عرفان صدیقی کی شخصیت اور شاعری پر جس خوب صورت انداز میں روشنی ڈالی ہے وہ انھیں کا خاصہ ہے۔اشرفؔ مارہروی کے اس مضمون سے عرفان صدیقی کی حیات، شخصیت اور فکر و فن کے بہت سارے ایسے گوشے وا ہوتے ہیں جو ہمیں کہیں اور دیکھنے کو نہیں ملتے ۔

انڈین پولس سروسیس کی ذمہ داریاں نبھاتے ہوئے اُردو زبان و ادب سے گہری وابستگی اور دلچسپی خانقاہی تربیت و پرورش کا آئینہ ہے۔ فصیح و بلیغ زبان ، دلکش بیانیہ ،قصے کہانی کا انداز ، صوفیانہ رسومات ، خانقاہی مزاج، عاجزی ، انکساری اورانسان دوستی جیسے اوصاف حمیدہ آپ کو ورثے میں ملے ہیں۔ سماج اور حکومت کی جانب سے بیان کردہ اُصول وضوابط پر عمل کرتے ہوئے اپنے مذہبی تشخص اور صوفیانہ مراسم کو قائم رکھنا بڑا دشوار گذار مرحلہ ہوتا ہے ۔ اقتدار اور زمانے کے غلاموں کے ذریعے ظلم و جبر کے معاملات پیش آتے ہیںلیکن ظلم و جبر کو برداشت نہ کرنا اور صدائے حق کو بلند کرنا ہی خانقاہوں کا مزاج رہا ہے ۔ مختلف ادوار میں خانقاہوں کے سجادہ نشین اور صوفیاے کرام نے اُردو زبان و ادب کو فروغ بخشا ہے ۔ اُردو تو خود گنگا جمنی تہذیب کا نام ہے ۔ اس دوآبہ کی تہذیب میںیہ زبان آج بھی سر چڑھ کر اپنی حقیقت کا لوہا منوا رہی ہے ۔ اب اگر ایسا ادیب جو ملک ہندوستان کا سب سے مشکل ترین امتحان کامیاب کر چکا ہو، ادبی رنگ میں رنگا ہوا اور خانقاہی مزاج میں پلا بڑھا ہو تو سمجھ لیجیے سونے پر سہاگہ ۔

سید محمد اشرف جہاں دینی حلقوں میں دور دور تک پہچانے جاتے ہیں وہیں بیرون ملک بھی آپ کے چاہنے والوں کی کثیر تعداد موجود ہے۔ عراق ، پاکستان ، قطر، بحرین ، ترکی وغیرہ ممالک میں ان کے محبین نے ان کے اعزاز میں محفلیں آراستہ کیں اور انھیں ایوارڈز اورسپاس نامے تفویض کیے۔شرف ملت سید محمد اشرف مارہروی اپنے ذاتی اور موروثی کمالات کے ساتھ اپنے خانقاہی حلقۂ ارادت سے بھی بے پناہ لگاؤ رکھتے ہیں ، مدارس اسلامیہ کو ترقیوں کی ڈگر پر دیکھنے کے خواہاں رہتے ہیں ۔ ہمیشہ اپنے گراں قدر تعاون اور مفید مشوروں سے نوازتے رہتے ہیں۔ ملت اسلامیہ ہند کی تعلیمی ترقی میں بھی آپ پیش پیش رہتے ہیں۔ ملازمت سے سبکدوشی کے بعد آپ مسلسل البرکات ایجوکیشنل سوسائٹی کے زیر اہتمام چلنے والے اداروں نیز دنیا بھر میں ان کے حلقۂ ارادت کے زیر انصرام جاری مختلف انجمنوں کی سرپرستی فرمارہے ہیں۔ آ پ کی انھی خوبیوں اور خصوصیات کو دیکھتے ہوئے حال ہی میں مسلم یونیورسٹی علی گڑھ کے وائس چانسلر نے آپ کو شعبۂ اردو میں وزیٹنگ پروفیسر منتخب کیا ہے۔ ہم سب بارگاہِ صمدیت میں دعا گو ہیں کہ  ؂

اللہ کرے مرحلۂ شوق نہ ہو طے !


***


Previous Post Next Post