Biography Rehan e Millat Molana Muhammad Rehan Raza Khan Barelvi حضرت مولانا محمد ریحان رضا خاں بریلوی

 حضرت مولانا محمد ریحان رضا خاں بریلوی



نام ونسب: اسم گرامی: مولانا  محمد ریحان رضا خان۔لقب: ریحانِ ملت۔سلسلہ نسب اس طرح ہے: حضرت مولانا محمد ریحان رضا قادری بن مفسرِ اعظم ہند حضرت  مولانا محمد ابراہیم رضا خاں بن حجۃ الاسلام حضرت مولانا محمد حامد رضا خاں بن اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خاں قادری فاضل بریلوی بن مولانا نقی علی خاں بن مولانا رضا علی خاں بن حافظ کاظم علی خاں ۔(علیہم الرحمۃ والرضوان)۔(حیاتِ اعلیٰ حضرت)

تاریخِ ولادت: آپ کی ولادت باسعادت 18/ذی الحجہ 1325ھ،مطابق  ماہ جنوری/1908ء کو محلہ خواجہ  قطب بریلی (انڈیا) میں ہوئی۔حضرت ریحان ملت مولانا محمد ریحان رضا علیہ الرحمۃ کی ولادت سے پورے خاندان میں خوشی کی لہر دوڑ گئی۔ خاندان کے ہر فرد کا چہرہ مسکرانے لگا۔ چونکہ نبیرۂ اعلیٰ حضرت مفسرِ اعظم ہند کے یہاں یہ پہلی ولادت تھی، کانوں میں اذان و تکبیر پڑھی گئی۔ حجۃ الاسلام حضرت مولانا محمد حامد رضا علیہ الرحمہ نے اپنا لعابِ دہن عطا فرمایا، جو منھ میں رکھ دیا گیا، جد امجد حجۃ الاسلام علیہ الرحمۃ نے نام رکھا، بعدہٗ پکارنے کے لیے ریحان رضا تجویز فرمایا، اسی واقعہ کی طرف نشان دہی کراتے ہوئے حضرت ریحان ملت نے اپنے نعتیہ کلام میں تحریر فرمایا ہے۔

؏: نام یہ جس نے دیا اس کو خبر تھی شاید۔۔۔۔۔۔۔۔ان کا  ریحان زمانے میں  چمکتا  ہوگا

تحصیلِ علم: پیدائش کے بعد ریحان ملت نے طفولیت کے ایام علم و حکمت  معرفت  وطریقت  کے خوش گوار ماحول میں گذارے۔ بچپن ہی سے علم وادب کے  دلدادہ تھے۔ اعلیٰ ذہانت و فطانت رکھتے تھے۔ ریحان ملت کی تعلیم گھر پر ہوئی حسب الحکم والد ماجد مفسر اعظم ہند علیہ الرحمۃ لائل پور پاکستان تشریف لے گئے۔ وہاں پر جامعہ رضویہ مظہر اسلام میں داخلہ لے کر محدث اعظم پاکستان حضرت مولانا محمد سردار احمد رضوی لائل پوری علیہ الرحمۃ کی خدمت میں تین سال  مسلسل رہ کر معیاری کتابوں کا درس حاصل کیا، پھر وہاں سے واپسی کے بعد دارالعلوم منظرِ اسلام بریلی شریف سے باقاعدہ دستار بندی ہوئی، اور سندِ فراغت پائی۔

اساتذہ:حضرت ریحان ملت کے اساتذۂ کرام  میں مندرجہ ذیل حضرات کے اسماءِ گرامی قابل ذکر ہیں، جنہوں نے شب وروز محبت وشفقت  کے ساتھ علمِ دین پڑھایا،  اور معرفت وحکمت، علوم وفنون عطا فرماکر مستند عالم بنایا:۱۔ حجۃ الاسلام حضرت مولانا  محمد حامد رضا خاں قادری بریلوی  علیہ الرحمۃ۲۔ تاجدارِ اہلسنت حضرت مفتی اعظم مولانا مصطفیٰ رجا نوری بریلوی قدس سرہٗ۳۔محدث اعظم پاکستان حضرت مولانا محمد سردار احمد رضوی لائل پوری علیہ الرحمۃ۴۔ مفسر اعطم ہند حضرت مولانا محمد ابراہیم رضا خاں جیلانی بریلوی علیہ الرحمہ۵۔ امام النحو حضرت مولانا سید غلام جیلانی میرٹھی علیہ الرحمۃ۶۔ محدث  منظر اسلام حضرت مولانا احسان علی رضوی علیہ  الرحمۃ۷۔ بحر العلوم حضرت مفتی سید افضل حسین رضوی مونگیری علیہ الرحمۃ۸۔ حضرت مولانا مفتی جہانگیر خاں رضوی اعظمی مدظلہ۔

بیعت وخلافت: حضرت ریحان  ملت بیعت واردت حضور مفتی اعظم قدس سرہٗ سے رکھتے تھے۔ 1357ھ/1938ء کو جد امجد حجۃ الاسلام حضرت مولانا محمد حامد رضا  خاں بریلوی علیہ الرحمۃ نے  ماذون و مجاز فرمایا۔15/جنوری 1962/1381 کو حضور مفتی اعظم مولانا مصطفیٰ رضا نوری بریلوی قدس سرہٗ نے ریحان ملت اور جانشین مفتی اعظم حضرت مولانا مفتی محمد اختر رضا خاں ازہری قادری بریلوی دامت برکاتہم القدسیہ کو ساتھ ہی ساتھ خلافت  واجازت عطا فرمائی، اور یہ خلافت میلاد شریف  کی مبارک محفل میں عطا ہوئی۔ خلافت کے وقت شمس العلماء حضرت مولانا قاضی شمس الدین احمد رضوی جعفری جونپوری علیہ الرحمۃ (مصنف احکام شریعت)بھی رونق افروز تھے،اور علاوہ ازیں والد ماجد مفسر اعظم ہند مولانا محمد ابراہیم رضا بریلوی علیہ الرحمۃ سے بھی اجازت حاصل تھی۔ (مفتی اعظم اور ان کے خلفاء:368)

سیرت وخصائص:  گلشن ِرضویہ کے مہکتے پھول،جامع المنقول والمعقول،استاذالعلماء ،سند الفضلاء،ریحانِ ملت،حضرت علامہ مولانا محمد رضا خان قادری بریلوی رحمۃ اللہ علیہ۔آپ علیہ الرحمہ فاضلِ کامل،اور جید عالم دین تھے۔اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ کی علمی وروحانی امانتوں کےوارثِ کامل تھے۔ آپ علیہ الرحمہ کی تعلیم وتربیت پر خصوصی توجہ دی گئی تھی۔یہی وجہ ہے کہ آگے چل کر اس  مردِ کامل نےقوم وملت،اور دینِ اسلام کےلئےکارہائے نمایاں انجام دئیے۔جن میں سےاہم کارنامےمرکز ِاسلام ’’منظر ِ اسلام‘‘ اور رضا مسجدکی جدید خطوط پر تعمیر وترقی،اوردارالاقامہ،نشر واشاعت کےلئےبرقی پریس کااہتمام ہے۔

آپ نے مشن اعلیٰ حضرت  کی خوب ترویج فرمائی۔اللہ تعالیٰ نے آپ کوبےپناہ خوبیوں سےمالا مال کیا تھا۔دینی وعصری علوم وفنون سے بہرہ ور تھے۔اگر چاہتے تو مالی منفعت کی خاطر کسی بھی فیلڈ  کو منتخب کرلیتے۔لیکن حضرت ریحان ملت سند فراغت حاصل کرنے کے بعد منظر اسلام بریلی میں  بحیثیت  مدرس بارہ سال تک قلیل مشاہرے پر  تدریسی خدمات انجام دیتے رہے، اور زبانِ فیض ترجمان سے گوہر فشانی کرتے رہے، اس دوران ریحان ملت نے درسِ نظامی کی مختلف کتابیں پڑھائیں۔ ادب سے زیادہ دل چسپی تھی۔

فنِ وعظ گوئی: حضرت ریحان ملت وقت کے بہترین مقرر اور مایۂ ناز خطیب تھے۔ کبھی  بھی تقریر کرنے سے قبل ذہن میں مضامین کی ترتیب نہیں دی اور نہ ہی تقریر  کو لکھ کردیاد کیا بلکہ فی البدیہ تقریر فرماتے۔

سیاسی گرمیاں: 1976ءمیں عوام وخواص بالخصوص علماءِ  کرام کے انبوہ کثیر نے حضرت ریحان ملت کی ذہانت، فطانت، بالغ، نظری، دور اندیشی دیکھ کر بالجبر ریحانِ ملت کو میدانِ سیاست میں آزاد امیدوار کی حیثیت سے کھڑا کیا،کیونکہ اس وقت پارلیمنٹ  اور اسمبلی میں کوئی حق بات کہنے والا نہیں تھا، کوئی نمائندہ ایسا نہیں تھا جو مسلمانوں کی صحیح قیادت کر سکے۔ انہیں حالات کے پیش نظر لوگوں کے اصرار پر راضی ہوئے، میدان سیاست میں رہ کر کارہائے نمایاں انجام دیئے جو اپنی مثال آپ ہیں۔اس میدان میں بڑے بڑے دانشوروں کے قدم لغزش کھا جاتے ہیں، مگر ریحان ملت نے اٹھارہ سال کا طویل عرصہ میدان سیاست میں گزارا۔ کہیں بھی کسی قسم کا دامن ِ سفید پر بد نمائی کا داغ نہیں لگنے دیا، بلکہ کونسل اور اسمبلی میں ایسی بے باکی اور دلیری سے تقریریں کیں کہ خود کانگریس آئی کہ ممبروں کے دانت کھٹے ہوگئے۔

جلوس محمدی کا دوبارہ آغاز: ہندوستان کی آزادی سے پہلے جلوسِ محمدی ﷺ بریلی میں نہایت ہی تزک واحتشام کے ساتھ منایا جاتا تھا، اور لوگ شان و شوکت کے ساتھ جلوس میں شریک ہوتے تھے، لیکن 1947ء  سے جلوس محمدی ﷺ کانکلنا بند ہوگیا تھا۔ لوگوں کے پیہم اصرار سے ریحان ملت  نے اچانک 1980ء میں 12/ربیع الاول شریف کے موقع پر جلوس محمدیﷺ نکالنے کا اعلان کردیا۔ پولیس والوں نے انتھک کوشش کی کہ جلوسِ محمدی ﷺ نہ نکالا جائے  لیکن ریحانِ ملت نے فرمایا:ہر گز نہیں! جلوس ضرور نکلے گا۔ آج ہمارے رسول سرکارِ مدینہﷺ کا یوم ولادت ہے، ہم اس خوشی میں جلوس نکالتے ہیں اور نکالتے رہیں گے چاہے اس  کےلئے ہمیں جیل بھی جانا پڑے۔

آپ علیہ الرحمہ نے پوری دنیا میں تبلیغی دورے کیے،جہاں گئے مشنِ اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ  کوزندہ کرتے گئے،اور عشقِ محمدی ﷺ کی سوغات تقسیم کرتے گئے،بدمذہبیت ولادینیت کےعفریت کوختم کرتےگئے۔

تاریخِ وصال: آپ کا وصال  18/رمضان المبارک 1405ھ،مطابق جون/ 1985ء  کوہوا۔گنبدِ رضا(بریلی شریف)میں آرام فرماہیں۔

ماخذ ومراجع:  مفتی اعظم اور ان کےخلفاء۔

Post a Comment

Previous Post Next Post