Biography Shaheed Malik Mumtaz Hussain Qadri غازی ملک ممتاز حسین قادری

 

 غازی ملک ممتاز حسین قادری رحمۃ اللہ علیہ 

غازیِ اسلام،غازیِ ملت،محافظِ ناموسِ رسالتﷺ،پروانۂ شمعِ رسالتﷺ،پیکرِغیرت وحمیت،شہیدِناموسِ مصطفیٰ،جناب ملک ممتاز حسین قادری شہید رحمۃ اللہ علیہ۔آپ فنافی الرسولﷺتھے۔رسول اللہﷺکی محبت آپ کاسرمایۂ حیات تھا۔ہروقت ذکرِ مصطفیٰﷺکرنا،اورسنناان کامحبوب مشغلہ تھا۔غازی صاحب کامسلک عشق ومحبت ہے۔ایک مرتبہ غازی صاحب فرمانے لگے :کہ اگراللہ جل شانہ مجھ سے پوچھےممتازقادری!مانگ کیامانگتاہے؟تومیں عرض کروں گااےباری  تعالیٰ !اپنے نبی ﷺکےساری امتیوں کواپنے نبیﷺکاعشق عطاءفرما۔[5]

نام ونسب: اسمِ گرامی:ملک ممتازحسین قادری۔

لقب: غازیِ اسلام،غازیِ ملت،محافظِ ناموسِ رسالت،پروانۂ شمعِ رسالت،شہیدِ ناموسِ مصطفیٰﷺ

۔والدکااسمِ گرامی:ملک بشیراعوان صاحب مدظلہ العالی۔(ملک صاحب نہایت ہی ایماندارشخص ہیں۔محنت مزدوری کرتے ہیں۔آپ فرماتے ہیں:میں نے ہمیشہ اپنی اولادکورزقِ حلال کھلایا ہے،کبھی اپنی اولادکوحرام کالقمہ  نہیں کھلایا)

سلسلہ نسب اسطرح ہے:غازی ملک ممتاز حسین قادری بن ملک بشیراعوان بن ملک خان محمد بن ملک دادن خان ۔ملک دادن خان علیہ الرحمہ غازی صاحب کے پڑداداتھے۔یہ خدارسیدہ اورخداترس بزرگ تھے۔مسافروں کوکھاناکھلانا فرض جانتے تھے۔آج بھی لوگ ان کی پرہیزگاری وسخاوت کوبیان کرتےہیں،اورقدرکی نگاہ سےدیکھتے ہیں۔ان کامزارشریف اسلام آبادمیں"کھڈامارکیٹ"کےساتھ سی،ڈے،اے،کی عمارت کےعقب میں ہےٖ[1]۔غازی صاحب کاآبائی گاؤں"باغ بھٹاں"ہے،باغ بھٹاں موجودہ "آبپارہ"کےقریب واقع تھا۔اسلام آباد کی تعمیر کی غرض سےحکومت نے سب دیہاتوں کومنہدم کرکےان کے مکینوں کویہاں سے بے دخل کریاتھا۔ آپ نسبا ً"قطب  شاہی اعوان"برادری سےہیں۔آپ کاسلسلہ  نسب حضرت محمد بن حنفیہ بن مولاعلی کرم اللہ وجہہ تک منتہی ہوتا ہے۔اس قوم میں میں بڑے بڑے اولیاء،اورنامور سپہ سالارپیداہوئے ہیں[2]۔

 تاریخِ ولادت: آپ کی ولادت باسعادت،بروزمنگل،8/ربیع الاول1405ھ،مطابق یکم جنوری/1985ء،مطابق ماہ ربیع الثانی 1405ھ، کوصادق آبادکے علاقے "مسلم ٹاؤن"راولپنڈی،پاکستان میں پیداہوئے[3

]۔ٖ ولادت سے قبل بشارت: غازی صاحب کے والدِ محترم فرماتے ہیں: ممتاز کی ولادت سےدوسال قبل میں نے ایک عجیب  واقعہ دیکھا۔میرامعمول تھاکہ میں رات کےپچھلے پہراٹھ کرتہجدکی نماز اداکرتاتھااوراس مقصد کےلئے ہمارے گھر کاایک کونہ مختص تھاجہاں مصلیٰ بچھاہوتا تھا۔جس نے گھروالوں میں سے نمازاداکرنی ہوتی وہ اسی جگہ نمازاداکرتا۔ایک رات میں بیدارہوا اورنمازکےلئے مذکورہ گوشے میں پہنچا تودیکھا کہ ایک نورانی شخصیت اس مصلے پرنماز اداکررہی ہے،میں انہیں دیکھنے لگا،انہوں نے نماز مکمل کی اور خاموشی سے جانے لگے،پھراچانک واپس مڑے اورمجھے فرمایا:"اس گھر کے جنوبی کونے میں ایک اللہ کاولی پیداہوگا،جوپوری دنیا میں اسلام کی عزت کاپرچم بلندکرےگااورتمھارانام روشن کرے گا"یہ کہتے ہوئے وہ تشریف لے گئے۔دوسال بعد میرے بیٹے ممتازحسین کی ولادت اسی جگہ ہوئی،جہاں بزرگ نے نشاندہی فرمائی تھی۔اس کے بعد میں اس بات کوبھول گیاتا آنکہ 4/جنوری 2011ء کوسلمان تاثیرقتل ہوا،اورسارے معاملات سامنے آئے۔پھر مجھے وہ بزرگ والاواقعہ یاد آیا کہ جس شخص کے متعلق اس بندۂ خدانے خبر دی تھی وہ توممتازحسین نکلا[4]۔ ایک اوربات کہ غازی صاحب کی ولادت سے ہمارے گھرکے معاشی حالات بھی بہترہوگئے۔

تحصیلِ علم: غازی صاحب نے میٹرک تک تعلیم اپنے گھرکےقریب پرائیویٹ انگلش میڈیم اسکول "عائشہ لاثانی پبلک اسکول"مسلم ٹاؤن میں حاصل کی۔ بچپن سے ہی  میں غازی صاحب خامو ش طبع اپنے کا م سے کا م رکھنے والےبغیرکسی کی مددکےسکول کےلئےتیارہوجانااپنا ہوم ورک بغیر کسی کی مددک کرلینا وغیرہ۔اسکول کی تقریبات میں نعتیں  شوق سےپڑھتےتھے۔نعتیہ مقابلے میں بھی حصہ لیتے تھے۔اسی طرح محلے میں جہاں کہیں نعت خوانی،یامیلادشریف کاپروگرام ہوتا اس میں ضرورشرکت کرتے۔میٹرک کےبعد"سویڈش کالج"میں الیکٹرونکس ڈپلومہ کیا۔پھر اسی دوران 2002ء میں محکمہ پولیس میں بھرتی ہوگئے۔آپ جسمانی اور ذہنی طورپر انتہائی مضبوط اورنشانہ بازی میں اپنے بیج کے تمام لڑکوں سے مسابقت رکھتے تھے۔

بیعت: میٹرک کے بعد امیرِ دعوتِ اسلامی ابوبلال حضرت علامہ مولانا محمد الیاس عطارقادری  مدظلہ کےدستِ حق پرست پر بذریعہ خط بیعت ہوگئے،اوردعوتِ اسلامی کے اجتماعات میں شریک ہونے لگے۔ 

غازی صاحب کی سیرت کی چندجھلکیاں : غازی صاحب بچپن سے ہی سعادت مندتھے۔والدین، اساتذہ،بزرگوں،سبھی مسلمانوں کےساتھ ادب سے پیش آتے تھے۔کبھی کسی سے لڑائی جھگڑانہیں کیا۔ہمیشہ نمازباجماعت اداکرتے تھے۔بزرگ فرماتے ہیں:جونمازی نہیں بن سکتا وہ غازی کیسے بن سکتا ہے؟ اکثرلوگوں کومحبت بھرے انداز میں نیکی کی دعوت اوربرائی سے منع کرتے رہتے تھے۔اعلیٰ حضرت امام اہلسنت کانعتیہ کلام اکثر یادتھا۔علماءِ کرام کےبیانات شوق سےسنتے تھے۔اسی سےمحبتِ مصطفیٰ ﷺ میں اضافہ ہوا۔غازی صاحب انتہائی بااخلاق اورنیک سیرت کےمالک تھے۔محلے کی بوڑھی خواتین بازارسےسوداسلف منگوانے کےلئےاکثرغازی صاحب کوپیسے دےدیتیں اورغازی صاحب بلاچوں  چراسوداسلف خریدکرآتے۔جب کوئی بوڑھا شخص یامحلے کی عمر رسیدہ خواتین بازارسےسامان لےکرآرہی ہوتیں توآپ سامان اٹھاکر گھر پہنچادیتے۔بعض مرتبہ بوڑھی خواتین سے گھرکاکوڑاکرکٹ لےکرپھینک آتے۔آپ کی طبیعت میں عاجزی وانکساری،خلوص وایمانداری کاجذبہ کوٹ کوٹ کر بھراہواتھا۔دینِ اسلام سےسچی محبت واطاعت کاندازہ آپ کی سنت کےمطابق  شادی سے لگایاجاسکتا ہے۔ان مواقع پرتوبڑے بڑے حاجی صاحبان کےپاؤں بھی ڈگمگاجاتے ہیں،جواز یہ ہیش کرتے ہیں:جی بچے نہیں مان رہے،بچوں کاشوق ہے،حالانکہ  خلافِ شرع اور فضول وبےہودہ رسومات کےلئے پیسہ  حاجی صاحب کےہاتھ سے جارہاہوتا ہے۔۔۔۔غازی صاحب کے بھائی کہتے  ہیں:ہم نے سوچاتھا کہ سب سے چھوٹے بھائی کی شادی ہے،اورخوب  ارمان نکالیں گے۔جیسےہی غازیِ ملت کومعلوم ہوا فرمایا میری شادی انتہائی سادگی سے ہوگی،میرے سسرال کوجہیزسے بالکل منع کردیں،اورمیری شادی پردیگرپروگراموں کی بجائے نعت خوانی ہوگی۔

گونرسےکیادشمنی تھی: غازی ِ ملت کی گورنرپنجاب سے کوئی ذاتی رنجش یادشمنی نہیں تھی۔ وہ شراب کا رسیا تھا، ایک سکھ عورت سے اس کا ناجائزبیٹا  یہ کہ  رہا تھاکہ اس کا باپ سچا مسلمان نہیں، لیکن یہ سب کچھ اس کا ذاتی فعل قرار دےکرنظر اندازکیاجاسکتاتھا،لیکن کیاایک سچا مسلمان رسول اللہﷺ کی شان میں اس کی گستاخی کو کیسےبرداشت کرسکتا تھا؟ 14/جون 2009ءکوضلع ننکانہ میں ایک عیسائی عورت آسیہ مسیح نے رسول اللہ  ﷺکی شان میں گستاخی کی،عدالت میں اس نے اعترفِ جرم کیا۔عدالت نے اسے 8/نومبر2010ءکوسزائےموت اورایک لاکھ جرمانہ کاحکم سنایا۔(یہ عدالت نہ کسی مولوی کی تھی،اورنہ ہی جج صاحب کوئی عالم،یامفتی تھے۔بلکہ یہ تمام سب کچھ ریاست کےقوانین  کے ماتحت ہوا۔)20/نومبرکوگورنرپنجاب نےملعونہ سےملاقات  کرکےکانفرنس کی،اوراسے رہائی کایقین دلایا۔(یہ توہینِ مذب کےساتھ توہینِ عدالت بھی تھا،لیکن  تمام ادارے سب خاموش  تماشائی تھے۔) اس سزا کو"ظالمانہ سزا"اورتحفظِ ناموسِ رسالت کےقانون (جوکہ قرآن وسنت سے ماخوذہے)کو"کالاقانون"کہا،علماء کےفتووں کو"جوتے کی نوک پررکھتاہوں"کےالفاظ بکے۔پورے ملک میں تمام شعبۂ ہائے زندگی کے افراد نے گورنرکےاس طرزپراحتجاج کیا۔یہاں تک کہ پارلیمنٹ میں ترمیمی بل پیش کردیاگیا،کہ اس قانون کو ختم کردیاجائے،یااس میں ترمیم کی جائے۔ادھرغازی صاحب نےوکلاءسےمعلوم کیا کہ گورنرکے خلاف ایف آئی آر کیوں نہیں  درج ہورہی۔وہ کہنے لگے کہ ان کو"استثنا"حاصل ہے۔

غازی صاحب کے بھائی فرماتے ہیں: اس دوران میں  نےدیکھا کہ ہرکسی سےمسکراکر ملنے والا،اوربااخلاق شخصیت کاحامل میرےبھائی نے اپنی جسمانی اور ظاہری حالت بہت خراب کرلی تھی،لباس پرتوجہ نہیں، کھانےپینےکا ہو ش نہیں،رات بھرجا گتےرہتے،ایک ماہ کے بیٹے کی کو ئی خبر نہیں، بیماربیوی پرکو ئی توجہ نہیں،ہروقت بے چینی کا شکاراورمضطرب نظر آتے  ہیں۔ جیسے کچھ کھو گیا ہو،جیسے کو ئی لٹ گیا ہو، میں بتا نہیں سکتا  کہ غازی ممتاز صاحب کی حالت  دیکھ کرگھروالےکس قدرپر یشان ہو گئےتھے۔کیو نکہ نہ کچھ بتاتےتھے،اورنہ کچھ نظرآتاتھاکہ ماجراکیاہے؟میں نےکہا بھائی جان! آپ کےبیٹےکی طبیعت ناسازہے،کسی ڈاکٹرکودیکھاؤ۔کہنے لگے:آپ اسے کل ڈاکٹر کے پاس لے جا نامجھ میں ہمت نہیں کہ اسےڈاکٹر کےپاس لےجاسکوں۔

عدالتی رپورٹ کے مطابق آپ کابیان:"مجھے سلمان تاثیر سےملاقات کاموقع ملا:میں نےکہا:محترم! آپ نے بحیثیت گورنرقانون  تحفظِ ناموس رسالت کو"کالاقانون"کہا ہے؟اگرایساہےتویہ آپ کوزیب نہیں دیتا۔اس پراچانک وہ چلایااورکہنےلگا:"نہ وہ صرف کالاقانون ہے بلکہ (نعوذ باللہ)وہ میری نجاست ہے"۔میں نےٹریگردبادیااوروہ میرےسامنے ڈھیرہوگیا۔مجھے کوئی پچھتاوانہیں ہے،میں نےیہ تحفظِ ناموسِ رسول ﷺ کےلئےکیا ہے[6]۔ آپ کےاس اقدام سےاٹھنےوالےسب فتنےتھم گئے،گستاخان پرزمین تنگ ہوگئی،اورجواس قانون کوختم کرنےکی قراردادیں پیش کررہےتھے،ان کی زبانیں گنگ ہوگئیں،پھروہ بھی اس قانون کے تحفظ کی باتیں کرنے لگے۔پورے ملک میں مسلمانوں میں خوشی کی لہردوڑ گئی،سارے مسلمانوں کاقرض وفرض ایک غازی صاحب نےچکادیا۔ 

گورنرکاجنازہ تازیانۂ عبرت: پاک وطن کے پلیدذہنیت رکھنے والے،اوراغیارکےنظام کےمتوالےسیاستدانوں کےلئے ان کے "بڑے"کاجنازہ نشانِ عبرت ہے۔پورے ملک میں جنازہ پڑھانےکوکوئی تیارنہ تھا،بالآخر پیپلزپارٹی کے ایک باریش کارکن کےساتھ علامہ کا لاحقہ لگاکر چالیس سیکنڈمیں جنازہ پڑھایا گیا۔آج چندموم بتی والی آنٹیاں،اورلنڈےکےکوٹ پہننے والےبینگنوں کےعلاوہ کوئی  نام لیوانہیں ہے،اورغازیِ ملت لاکھوں مسلمانوں کےدل کی دھڑکن ہیں۔اس بات کی گواہی جنازہ دےچکاہے۔

 جیل میں کرم نوازیاں:جب غازی صاحب کو جیل لیجایا گیا تو قیدیوں نےشانداراستقبال کیا۔ہرطرف سےیہ صداآتی تھی"ہماراسردارآگیا،مصطفیٰ کا کاجان  نثارآگیا"غازی صاحب فرماتےہیں:مجھےبارہارسول اللہﷺکی زیارت ہوئی جب مجھ پرتشددکےپہاڑتوڑےجارہے ہوتے تھے،تومیں اس وقت خانۂ کعبہ اور گنبدِ خضراکےقریب اپنے آپ کوموجودپاتاتھا۔غازی صاحب کی بشارتوں کےواقعات بہت زیادہ ہیں۔

 غیرشرعی عدالتی فیصلہ: یکم اکتوبر 2011ءکودہشت گردی کی عدالت کےجج پرویزعلی شاہ نےپرویزی فیصلے میں  آپ کو دو مرتبہ سزائے موت،اوردولاکھ جرمانےکی سزاسنائی۔پھر دہشت گردی کی دفعات ختم کردی گئیں۔7/اکتوبر 2015ءکوجج  آصف کھوسہ نے کسی کے دباؤپر تمام دفعات بحال کردیں۔ 

علامہ اقبال اورقائدِ اعظم کی روح سے غداری: انگریزکےدورِ  حکومت میں بانیِ پاکستان قائدِاعظم محمدعلی جناح علیہ الرحمہ غازی علم الدین  شہیدکی وکالت کررہے تھے،اورمفکرِپاکستان شاعرِ مشرق علامہ محمد اقبال علیہ الرحمہ جنازےکوکندھادینے والوں میں سےتھے،اوران کولحدمیں اتارا۔اسی طرح غازی عبدالقیوم شہید کی شہادت پران کی شان میں نظم تحریرفرمائی۔لیکن بعد میں ان کےبنائے ہوئے ملک میں عاشقِ رسولﷺکوتختۂ دارپرلٹکایا گیا۔اس وقت ایک رپورٹ کےمطابق تقریباً1400گستاخانِ رسول جیلوں میں ہیں۔کسی کواس قانون کے تحت سزانہیں دی گئی ہے،ملعونہ آسیہ مسیح ابھی زندہ ہے۔ایک امریکی جس نے دن دہاڑے چارافرادکوقتل کردیا اس کوباعزت رہاکردیاگیا۔ہروقت قانون قانون کی گردانیں پڑھنے والوں کی زبانیں  یہاں پرکیوں خاموش ہوجاتی ہیں؟۔ممتازقادری ایک جذبےاورفکرکانام ہے،فکراورجذبہ کبھی طاقت سےختم ہواہےاور نہ ہوگا۔

 جس دھج سے کوئی مقتل میں گیا:عوامی ردعمل کےخوف سے آپ کوشہیدکرنےکامنصوبہ مکمل خفیہ رکھاگیا۔عوام اورغازی صاحب کے خاندان کودھوکہ دیاگیا،پاکستان کی تاریخ میں کبھی ایسا نہیں ہوا۔نیند کی حالت میں آپ کوبیدارکرکےبتایاگیا کہ صبح آپ کوپھانسی دی جائے گی،ادھرسے گھروالوں کوجھوٹ بول کربلایاگیا۔آپ نےگھروالوں سے ملاقات میں انہیں اطمینان کےساتھ جھوجھوم کر نعتیں سنائیں،اوربتایا کہ بیداری کی حالت میں رسول اللہ ﷺ،خلفاءراشدین،غوث اعظم،اورداتاعلی ہجویری کی زیارتیں ہوئی ہیں،اوران حضرات نے میری قربانی کی قبولیت کی بشارت دی ہے۔آپ کوشہیدکرنےکےلئےچاربجےکاوقت مقررکیاگیا۔اہلِ خانہ سےملاقات کے بعدآپ نے آبِ زم زم اورعجوہ کھجورسے روزہ رکھا،نمازِ تہجداداکی اوروقتِ مقررہ سے پہلے ہی پھانسی گھاٹ کی طرف  جانے لگے۔آپ سے کہاگیا:ابھی کچھ وقت باقی ہے۔فرمانے لگے:"سامنے رسول اللہ ﷺجلوہ افروزہیں اورانتظارفرمارہے ہیں"[7]۔آپ نے دورکعت نفل اداکیے،نعرۂ تکبیر،اور نعرۂ رسالت لگاتے ہوئے،فدائےمصطفیٰﷺ،بارگاہِ مصطفیٰﷺمیں حاضر ہوگیا۔ 

تاریخِ شہادت: بروزپیر20جمادی الاولی1437ھ،مطابق29/فروری2016ء ۔ تاریخی جنازہ: غازی ملت علیہ الرحمہ کاجنازہ ملکی تاریخ کاسب سےبڑاجنازہ تھا۔جس میں حکومتی رکاوٹوں،میڈیا کی بےغیرتی،کےباوجودایک محتاط اندازےکےمطابق 60لاکھ افرادشریک ہوئے۔ کروں تیرے نام جاں فدا۔۔۔۔۔نہ بس ایک جاں دوجہاں فدا دوجہاں سے بھی نہیں جی بھرا۔۔کروں کیاکروڑوں جہاں نہیں   [1]   پروانۂ شمعِ رسالت،ص،25 [2]   محافظ ناموسِ رسالت،ص،36 [3]   ایضا ً [4]  ایضا ً [5]   محافظ ناموس رسالت،ص،41 [6]   پروانۂ شمعِ رسالت،ص،10 [7]   پروانۂ شمعِ رسالت،ص،14



Post a Comment

Previous Post Next Post