Biography Sufi Shah Qazi Khawaja Saeed uddin Ahmed Farooqui Nizami تعارف قاضی سعیدالدین فاروقی نظامی رحمۃ اللہ علیہ

قاضی سعید الدین فاروقی نظامی رحمۃ اللہ علیہ


نا م ونسب: اسمِ گرامی: مولانا قاضی سعید الدین احمد۔لقب: فاروقی،نظامی۔ قاضی سعید الدین فاروقی نظامی بن قاضی امین الدین بن قاضی نادر علی فاروقی۔آپ کے اجداد میں قاضی سراج الدین کو  سلسلہ  عالیہ قادریہ میں بلا واسطہ خلافت حضرت غوث الاعظم ،اور سلسلہ سہروردیہ میں حضرت شیخ ابونجیب سہروردی قدس سرہ سے حاصل تھی۔اسی طرح شیخ حسن زنجانی بھی آپ کے اجداد میں سے ہیں، جن کامزار ِمقدس آج بھی لاہور میں مرجعِ خلائق ہے۔(علیہم الرحمۃ والرضوان)۔آپ کاسلسلۂ  نسب 32 واسطوں سے امیر المومنین حضرت سید نا عمر فاروق اعظم  رضی اللہ عنہ سے جا ملتا ہے۔

تاریخِ ولادت: یکم شعبان المعظم 1292ھ بمطابق 2/ ستمبر 1875ء بروز جمعرات گھاٹم پور ضلع کا نپور یو پی (انڈیا)میں تولد ہوئے ۔

تحصیلِ علم:  وقت کے مشاہیر علماء کی زیر سر پرستی  میں حصول علم کی جدو جہد جاری رکھی بالآخر فارغ التحصیل ہوئے ۔ دینی علوم میں کا مل دستگاہ رکھتے تھے ۔

بیعت و خلافت:سلاسل عالیہ قادریہ ، چشتیہ نظامیہ، فخریہ صابر یہ و نقشبندیہ میں آپ نے جن مشائخ سے اکتساب فیض کیا اور خرقہ و خلافت سے مشرف ہوئے ان میں سے (1)حضرت نور محمد قادری فتح پوری (2) مولانا فضل الرحمن گنج مراد آبادی (3) حضر ت مولانا نور محمد محبوب قلندر دہلوی ثم نیاولی (4) حضرت مولانا شر ف الدین فاروقی صابری (5) اور حضرت مولانا کریم الدین قادری وغیرہ مشہور ہیں ۔

سیرت وخصائص: خاندانِ فاروقِ اعظم کے سپوتِ جلیل،عالمِ نبیل،قاضیِ اسلام حضرت علامہ مولانا قاضی سعیدالدین فاروقی نظامی رحمۃ اللہ علیہ۔آپ جامع شریعت وطریقت تھے۔شریعت پر سختی  سے عمل پیراتھے۔کانپور میں آپ کے آباء واجداد کرام ہمیشہ عہدہ قضا پرنسل درنسل فائزرہے ، چنانچہ آپ بھی پاکستان نقل مکانی تک اس خدمت پر ماموررہے ۔ شریعتِ اسلامیہ کے مطابق فیصلے کرتے رہے۔شہر کی جامع مسجد میں جمعہ وعیدین کے موقع پر  تعلیماتِ اسلامی پر خطبے ارشاد فرماتے تھے۔

اپنے اکابرین کی طرح ہمیشہ تبلیغ و اشاعت دین اور شکستہ دلوں کی دستگیر ی کو اپنا فرض منصبی سمجھتے تھے۔ مگر اس کے بدلے مالی مفادات کا حصول عار جانتے ۔ ابتداً سرکاری ملازمت سے منسلک ہوئے اور کورٹ آف وارڈز میں بحیثیت ضلع دار فرائض منصبی ادا کرتے رہے۔ لیکن بعض خوارق کے ظہور کی وجہ سے ملازت کو خیر باد کہہ کر موروثی اراضی کی کاشت پر قانع ہو گئے اور اسی سے اپنی اور اہل و عیال کی کفالت کا فریضہ سر انجام دیتے رہے۔تمول پسندی کبھی مزاج نہیں رہا۔ نہ کبھی اہل تمول کی صحبت پسند فرمائی ۔ اہل ثرو ت و اقتدار کی آمد سےکبھی خوش نہ ہوئے بلکہ بادل ناخواستہ ان سے ملتے یا اجازت دیدیتے ۔

 آخری تہائی رات سے فجر تک مصروف ِعبادت رہتے ۔ جس میں طویل مراقبہ بھی شامل ہوتا ۔ بعد نماز بھی اور ادواشغال کا سلسلہ جاری رہتا۔ البتہ طلوع آفتاب کے بعد اگر موقعہ میسر آتا تو قدرے آرام کر لیتے ۔ تقسیم ہند کے بعد 1950ء میں آپ نے سفر حج سے واپس آکر ترک وطن کرکے باب الا سلام سندھ (پاکستان) میں تشریف لائے اور کراچی میں مقیم ہو گئے ۔ اس طرح آپ نے پاک سر زمین پر فقط نو سال کا مختصر عرصہ مقیم رہ کر انتقال کیا۔قدرت کی طرف سے ذوقِ شاعری ودیعت تھا۔شاعری کی  تمام اصناف پر مہارت رکھتے تھے۔اس لئے آپ کی کتب زیادہ تر منظوم شکل میں ہیں۔

آپ کے ملفوظات آبِ زر سے لکھنے کے قابل ہیں۔آپ فرماتے ہیں: (1)" بندگی یہ ہے کہ جو اس کا آقا کھلائے کھائے ، جو پہنائے پہن لے، تاکہ آقا راضی رہے۔ یہ بھی کوئی بندگی ہے ؟کہ ہم چاہیں کہ سب کام ہماری مرضی سے سر انجام پائیں ۔(2)  وصال سے قبل دونوں ہاتھ اٹھا کر پوچھا میرے ہاتھوں میں کیا ہے ۔کہا گیا کہ کچھ نہیں فرمایا:دنیا سے جو بھی جاتا ہے خالی ہاتھ جاتا ہے ۔ نہ کوئی کچھ لے کے آتا ہے اور نہ دنیا سے کچھ لے کر جاتا ہے۔ یہاں کا سب یہیں رہ جاتا ہے ، جو ساتھ جاتاہے وہ نیک عمل ہے مگرشرط یہ کہ  خالص ہو۔

تاریخِ وصال: بروز جمعۃ المبارک ،بوقت اذانِ مغرب ،12/ربیع الثانی 1379ھ،مطابق 16/اکتوبر 1959ء ،کو داعیِ اجل کو لبیک کہا۔پاپوش نگر قبرستان ناظم آباد کراچی میں گلزار سعید مسجد میں آپ کی خانقاہ مرجع ِخلائق ہے۔

ماخذومراجع:  انوار علمائے اہل سنت (سندھ)

Post a Comment

Previous Post Next Post