خواتین کا الگ تذکرہ:
اللہ پاک نے قرآن کریم کی سورۂ احزاب میں اپنے نیک بندوں اور نیک بندیوں کے نیک اعمال کا تذکرہ کیا ہے۔ لیکن اللہ پاک نے دونوں صنفوں کا الگ الگ تذکرہ کیا ہے۔ اور اس پیرائے کی طوالت کا لحاظ نہیں کیا۔ بلکہ الگ الگ ذکر کرکے یہ باور کر ایاہے کہ دونوں کی اہمیت خدا کے ہاں یکساں ہے۔
آپ دیکھتے ہیں کہ رب تعالیٰ تفریق کے تصور کوکس طرح توڑ رہے ہیں:
{اِنَّ الْمُسْلِمِیْنَ وَالْمُسْلِمَاتِ}
’’بے شک اسلام والے اور اسلام والیاں‘‘
{وَالْمُؤْمِنِیْنَ وَالْمُؤْمِنَاتِ}
’’ایمان والے اور ایمان والیاں‘‘
{وَالْقٰنِتِیْنَ وَالْقٰنِتٰتِ}
’’فرمانبردار مرد اور فرمانبردار عورتیں‘‘
{وَالصّٰدِقِیْنَ وَالصّٰدِقٰتِ}
’’صادق مرد اور صادق عورتیں‘‘
{وَالصّٰبِرِیْنَ وَالصَّابِرَاتِ}
’’صابر مرد اور صابر عورتیں‘‘
{وَالْخَاشِعِیْنَ وَالْخَاشِعَاتِ}
’’خشوع والے اور خشوع والیاں‘‘
{وَالْمُتَصَدِّقِیْنَ وَالْمُتَصَدِّقَاتِ}
’’تصدیق کرنے والے اور تصدیق کرنے والیاں‘‘
{وَالصَّآئِمِیْنَ وَالصَّآئِمَاتِ}
’’روزہ رکھنے والے اور روزہ رکھنے والیاں‘‘
{وَالْحَافِظِیْنَ فُرُوْجَھُمْ وَالْحٰفِظَاتِ}
’’اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرنے والے اور حفاظت کرنے والیاں‘‘
{وَالذّٰکِرِیْنَ اللّٰہَ کَثِیْرًا وَّالذَّاکِرَاتِ}
’’اور اللہ کو بکثرت یاد کرنے والے اور یاد کرنے والیاں‘‘
{اَعَدَّ اللّٰہُ لَھُمْ مَّغْفِرَۃً وَّاَجْرًا عَظِیْمًا} (الاحزاب : ۳۵)
’’اللہ تعالیٰ نے ان سب کے لیے مغفرت اور اجر عظیم تیار کر رکھا ہے۔‘‘
اس آیت کے ذیل میں مولانا ابو الحسن علی ندوی ؒ فرماتے ہیں:
بھائی اگر خدا کا معاملہ نہ ہوتا تو میں کہتا کہ اللہ کو بڑامزہ آ رہا ہے۔ ہر ایک کا الگ الگ ذکر کیا۔ کسی باپ سے پوچھئے جس کے چار سات بیٹے ہوں اس کا جی چاہے گا کہ ہر ایک کا نام لے کر بتائے اور ہر ایک پر اس کو لطف آئے گا۔
اللہ تبارک و تعالیٰ کی ذات بہت عالی ہے۔ انسانی خصوصیت اس کی طرف منسوب نہیں کی جاسکتی۔ لیکن اس کو انسانی ادب و انشاء کے لحاظ سے دوسرے طریقے سے بھی ادا کیا جاسکتا ہے۔ ’’وغیرہ‘‘ کا لفظ تواس وقت تک ایجاد نہیں ہوا تھا مگر مسلمان مرد اور عورتیں اور ایمان لانے والے مرداور ایمان لانے والی عورتیں اور اس طریقے سے دوسرے تمام فضائل میں شریک ہونے والے مرد اور عورتیں۔ لیکن ایک ایک کو الگ الگ کرکے بیان کیا کہ کوئی یہ نہ سمجھے کہ اسلام اورایمان میں تو مرد اور عورت شریک ہوسکتے ہیں۔ چلئے فرمانبرداری میں تو ممکن ہے۔ لیکن صادقین اور صادقات میں تو مشکل ہے۔ اس میں عورت جھوٹ بول رہی ہے‘ کبھی اپنی کمزوری چھپانے کے لیے‘ کبھی کھانے کے کی خرابی چھپانے کے لیے‘ کبھی اپنے بچے کی بری عادت پر پردہ ڈالنے کے لیے‘ کبھی سوجانے کی کمزوری پر‘ اور عورتیں سچائی میں مردوں کا مقابلہ نہیں کرسکتیں ‘ یہ تو مردانہ کام ہے بہادری کا کام ہے۔
والسابقین والسابقات یہ تو ٹھیک ہے لیکن الصابرین والصابرات بھلا وہ صبرکہاں کرسکتی ہیں ؟ہمیشہ یہی دیکھا گیا ہے کہ سب سے پہلے ان پر صدمے کا اثر پڑتا ہے‘ سب سے پہلے انہی کی زبان سے فریاد نکلتی ہے ‘ بعض اوقات تو ایمان خطرے میں پڑ جاتا ہے‘ بعض اوقات اولاد کا غم ہے… اللہ محفوظ رکھے… یا عزیزوں کا غم‘ سب سے پہلے عورت پر پڑتا ہے۔
اللہ تعالیٰ فطرت انسانی سے واقف تھے۔ اللہ تعالیٰ دلوں کے امور سے بھی واقف تھے کہ ہم اپنی بہنوں سے بد گمانی کریں گے۔ الصابرین والصابرات… جی نہیں صبر کے میدان میں عورتیں کسی حال میں مردوں سے پیچھے نہیں۔
والخاشعین والخاشعات… اب آیا معاملہ مال کا۔ تو عورت مرد کا مقابلہ نہیں کرسکتی۔ حاتم کا نام تو سنا ہوگا لیکن حاتمہ کا نام نہیں سنا ہوگا۔ اس لیے کہ صدقے میں عورتیں کیا دیں گی ؟وہ تو جمع کرنے والی ہیں‘ وہ بڑی سوگھڑ عورتیں ہیں‘ بہت گر ہست عورت ہے یعنی بچا بچا کر رکھنے والی۔ اس لیے فرمایا والمتصدقین والمتصدقات۔
اچھا صاحب روزہ بڑا مشکل معاملہ ہے۔ والصائمین والصائمات والحافظین فروجھم والحافظات‘ والذاکر ین اللہ کثیرا والذکرات۔
اتنی لمبی اعمال کی یہ فہرست کیوں بیان کی ؟تاکہ معلوم ہو کہ اللہ تبارک و تعالیٰ جس طرح اپنے بندوں پر شفقت کرتا ہے اسی طرح اپنی بندیوں پر بھی شفقت کرتا ہے۔ اس کی صفت ربوبیت اور اس کی صفت رحمت مردوں
اور عورتوں کے ساتھ ایک ساتھ کام کرتی ہے اور ان پر سایہ فگن ہے۔
(تعمیر حیات۔ ۱۰ فروری 1981ء)