غزل

غزل
جستجوئے خضر ہو تو نقش پا مل جائے گا
جب قدم اٹھنے لگیں گے۔ راستہ مل جائے گا
بڑھ کے طوفاں خود کرے گا رہنمائی آپ کی
حوصلہ رکھئے تو ساحل کا پتا مل جائے گا
ملنے جلنے کی اگر تم رسم پر قائم رہو
رفتہ رفتہ دل سے دل کا سلسلہ مل جائے گا
دل میں ایمان و یقیں کی شمع روشن کیجئے
جھانکئے گا اپنے اندر اور خدا مل جائےگا
بن کے جوگی پھر رہا ہوں بس اسی امید میں
اجنبی گلیوں میں کوئی آشنا مل جائے گا
اب وفا ممکن نہیں تو کچھ ادا کاری سہی
اس دل بے چین کو کچھ آسرا مل جائے گا
خود ہی مٹ جائےگا احزن بدعا کیوں دیں اسے
وحشتوں کا ایک دن اس کو صلہ مل جائے گا
مشتاق احزن جمشید پور
Previous Post Next Post
.