میری پلکوں پر سجا ہے شہرِ طیبہ کا جو خواب
ایک دن تعبیر اس کی میں بھی پاؤں گا جناب
طاق پر ہونٹوں کے روشن ہیں درودوں کے چراغ
اس لیے ہونے لگیں اپنی دعائیں مستجاب
اس لیے محفوظ ہوں میں دھوپ کی یلغار سے
سائباں ہے میرے سر پر ان کی رحمت کا سحاب
مجھ کو امیدِ کرم ہے سرورِ کونین سے
ٹال دیں گے میرے سر سے نارِ دوزخ کا عذاب
امتَ خیرالوریٰ کو ہوگی بخشش کی امید
جب خدا لے گا قیامت میں گناہوں کا حساب
حشر تک دیتی رہے گی روشنی ہم کو سعیدؔ
پائی ہے ہم نے نبی سے جو ہدایت کی کتاب